• news

قیدی کے جیل کے دروازے پر قدم رکھتے ہی اس سے غیر انسانی سلوک شروع ہو جاتا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے قیدی پر تشدد کے خلاف درخواست کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ الزامات نئے نہیں جونہی قیدی جیل کے دروازے پر قدم رکھتا ہے اس سے غیرانسانی سلوک شروع ہو جاتا ہے، عام تاثر یہی ہے کہ جیل کے اندر کوئی قانون نہیں اور بااثر قیدیوں کو وہ تمام سہولیات مل جاتی ہیں جو عام قیدیوں کو  دستیاب نہیں ہوتیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جیل کے اندر ہر قسم کی منشیات ملی جاتی ہے، اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بھی جیل حکام کے رویے نہیں بدل سکے۔ عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 27 مئی تک ملتوی کر دی۔ سمیعہ گیلانی رٹ میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کا والد غلام مصطفی گیلانی اڈیالہ جیل میں سزائے موت کا قیدی ہے جسے جیل حکام نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ گذشتہ سماعت پر فاضل عدالت نے جیل حکام کے مؤقف پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ قیدی کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جمعرات کو جیل حکام نے ہتھکڑی لگا کر ملزم کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔ عدالت کے حکم پر ملزم کی ہتھکڑی کھول دی گئی۔ بعدازاں 68 سالہ ملزم سید غلام مصطفی گیلانی نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیم یافتہ شخص ہے اور چار ماسٹر ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ملزم نے بتایا کہ اسے کلاس بی کی بجائے کلاس سی میں رکھا گیا ہے۔ 6 مئی 2014ء کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل تصور اقبال نے سیل کی تلاشی لی۔ دو عدد بنیان قبضے میں لے لیں جس پر  میں نے اعتراض کیا اور کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق یہ چیزیں ممنوع نہیں جس پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل غصے میں آ گیا اور باہر لان میں لے جا کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گالیاں بھی دیں۔ بعدازاں دو قیدی نے مجھے میرے سیل تک پہنچایا۔ جیل ہسپتال گیا تو دوائی بھی نہیں ملی۔ تاہم ڈاکٹر نے نیم گرم پانی استعمال کرنے کی ہدایت کی لیکن میرے سیل کی گیس ہی بند کر دی گئی۔ مذکورہ قیدی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جب سے میں نے کلاس بی کے مطابق سہولتیں مانگنا شروع کیں جیل حکام نے مجھ سے عناد شروع کر دیا ہے۔ جیل حکام کے ٹائوٹ مجھ سے منتھلی کا تقاضہ کرتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن