• news

اب بھی لوگ عدالت کی طرف دیکھتے ہیں؟

عدالت کی طرف سے تین چیزیں تقریباً ایک جیسی حیرت انگیز اور تشویشناک ہیں۔ سات ارب روپے سے بھی زیادہ کا فراڈ لوگوں کے ساتھ کرنے والے کو سات سال بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ نجم سیٹھی کی عدالت نے معطل کیا اور پھر عدالت نے ہی بحال کر دیا۔ اڑھائی سال کے بعد نامور وکیل اور بڑے سیاستدان ڈاکٹر بابر اعوان کا وکالت لائسنس بحال کر دیا گیا ہے۔ میں تو عدالتوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھے کئی بار نفسیاتی تکلیف دہ حالات میں عدالت سے ریلیف بھی ملا ہے۔ مگر ایک ردعمل ہے جو عدالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں تڑپ رہا ہے۔ وہ حکومت اور سیاست کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ایک دروازہ عدالت کا تھا وہاں بھی ڈر کے مارے دستک دینے سے گھبراتے ہیں کہ نہ کھلے یا دھڑام سے ہمارے ہی سر پر آ گرے اور پھر چیخیں اور دہائیاں۔ اب بھی لوگ صرف عدالت کی طرف دیکھتے یا آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھنے والوں کا دکھ عدالت بھی سمجھ نہیں پا رہی۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد جسٹس جواد خواجہ کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ بیانات تو سیاستدانوں حکمرانوں کی طرف سے سن سن کر لوگ بیزار ہیں۔ انہوں نے لیڈر کی طرح چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک میں جان و دل کے ساتھ حصہ لیا۔ وہ بحال ہو گئے مگر لوگ بے چارے بے حال ہو گئے۔ وہ بدحال تو پہلے ہی تھے۔ چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار یہ نعرہ ہمارا نالہ بن گیا ہے۔ یہ گندا نالہ بنتا جا رہا ہے۔ نالہ و زاری بیزاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جج صاحبان بیانات نہیں فیصلے دیں۔ کیا ایک بھی فیصلہ پچھلے چیف جسٹس نے دیا جو لوگوں کے لئے تھا۔ حکومتی، آئینی اور سیاسی فیصلے ہوتے رہے۔ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی کوئی داد رسی ہوئی نہ دستگیری ہوئی۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس اب بھی محترم ہیں مگر انہوں نے توہین عدالت کو توہین رسالت سے بھی اہم کر دیا۔ ایک نااہل کرپٹ وزیراعظم گیلانی کو اس گناہ میں گھر بھجوا جبکہ اس پر کرپشن نااہلی کا مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔ عدالتی قتل کی بات بھی زیادہ زور شور سے ہونے لگی ہے۔ ایک من چلے نے تو عدالتی مارشل لاء کی بات بھی کر دی۔ عدالتی آمریت کا نعرہ بھی لگنے لگا ہے۔ فوجی آمریت کی بات کرنے والے سیاسی یعنی جمہوری آمریت کم نہ کر سکے۔ اب لوگوں کو عدالتی آمریت کا سامنا بھی تھا۔ مگر آمریت کے بھی کچھ نہ کچھ ثمرات ہوتے ہیں۔ وہ بھی غریب، کمزور لوگوں کو نہ ملے۔ ان کے نام کسی قسم کی جمہوریت اور کسی قسم کی آمریت نہ آئی۔ میرے مرشد صحافت مجاہد آزادی صحافت پاسبان نظریہ پاکستان مجید نظامی نے فوجی اور سیاسی آمریت دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اب تیسری آمریت اور ساری آمریتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
نجم سیٹھی کا معاملہ ایک مذاق بن گیا ہے۔ اسے خود اپنی عزت کا خیال کر لینا چاہئے؟ کیا یہ بات نواز شریف اور پرویز رشید کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ مسئلہ حکومت ہے۔ شاید اس کی مجبوری ہے مگر عدالت کو خواہ مخواہ درمیان میں لایا جا رہا ہے۔ فوج کے علاوہ عدالتی ادارے کی بھی متنازع اور کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس جیلانی اور جسٹس خواجہ کچھ کر لیں یہ کام بیانات یا عدالتی ریمارکس سے نہیں ہو گا۔ کوئی فیصلہ کرنا ہو گا اور جج تو فیصلے کرتے ہیں۔ فیصلے اگر فاصلے بڑھائیں تو پھر بدقسمت غریب قوم کے لوگ کہاں جائیں۔
جب جج معطل ہوئے تو پورا ملک سڑکوں پر تھا۔ اب معطلیاں ہو رہی ہیں۔ عدالتیں اس نیک کام میں خود شریک ہیں یا ان واقعات پر خاموش ہیں۔ نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں دفاع پاکستان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی پوچھتا نہیں ہے مگر ایک شعر پر وکالت کا لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے۔ شاعری تو صوفی شعرا نے بھی کی۔ باغیانہ بات بھی اشعار میں چل جاتی ہے۔ میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا۔ اب شاعر کے بعد حکمران بھی کہہ رہے ہیںاور لوگ صرف نعرے لگاتے ہیں۔
ڈاکٹر بابر اعوان نے مقدمے میں غیر مشروط معافی بھی مانگی پھر بھی کوئی تلافی نہ ہوئی۔ لگتا ہے کہ یہ توہین عدالت سے زیادہ ذاتی توہین کی بات تھی۔ اب بھی جسٹس افتخار کے بعد یہ لائسنس بحال ہوا ہے۔ اس میں اڑھائی سال لگے ہیں۔
ڈبل شاہ رہا ہو گیا۔ جیل میں بھی دولت والوں کی عیش ہوتی ہے۔ ہم تو پہلے ہی بڑی جیل میں ہیں۔ برادرم راجہ انور نے کتاب لکھی تھی۔ بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک۔ اب تو بڑی جیل چھوٹی جیل سے بھی چھوٹی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ڈبل شاہ نے جیس میں ٹرپل شاہ کا روپ دھار لیا تھا۔ جس کا فائدہ جیل کے حکمرانوں اور اہلکاروں نے بھی اٹھایا۔
اس ملک میں کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی۔ جزا ملتی ہے۔ جزا ناجائز ہوتی ہے۔ ایک لطیفے باز دوست نے کہا کہ نجم سیٹھی کو ایسی ہی جزا مل رہی ہے۔ اور مسلسل ملتی جا رہی ہے۔ اس ملک میں نہ کوئی اور سیاستدانوں سے جو وزیراعظم بن سکے نہ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے کا اہل کوئی ہے۔ ہر کہیں نااہل آدمیوں کی بہار لگی ہوئی مگر ملک میں خزاں کا موسم جاری و ساری ہے۔
مجھے یاد آیا کہ منظور وٹو کے بعد عارف نکئی وزیراعلیٰ ہوئے تھے۔ وہ پھولوں کی نمائش میں گئے۔ ریس کورس پارک میں پھولوں کے ایک سٹال پر کہا کہ یہ پھول تو کینسر پھیلاتا ہے۔ ایک فاریسٹ افسر نے بصد ادب کہا کہ جناب یہ وہ پھول نہیں ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ ناراض ہو گئے۔ کہنے لگے کہ چیف منسٹر میں ہوں یا تم ہو۔ تم معطل ہو۔ بے چارہ ملازم پریشان ہو گیا۔ اسے ایک دو زمیند اور قابل افسر کامران لاشاری نے کہا کہ ابھی ہم نکئی کو اس طرف لائیں گے تو تم ان سے معذرت کر لینا۔ نکئی صاحب آئے تو فاریسٹ افسر نے کہا کہ جناب آپ بالکل درست کہہ رہے تھے۔ مجھے بھی غلط فہمی ہوئی تھی تو نکئی صاحب خوش ہو گئے۔ ’’بد دے پتر‘‘ آئندہ احتیاط کرنا۔ چل تو بحال ہے۔ کیا معطلی ہے کیا بحالی ہے؟ کوئی بتائے کہ حکومت اور عدالت میں کوئی فرق رہ گیا ہے۔
نجم سیٹھی بحالی کی خوشی میں صحافیوں کو ڈانت رہے تھے کہ ایک صحافی نے امریکہ میں دو کروڑ ڈالر سے خریدے گئے فلیٹ کی بات کر دی تو وہ سیخ پا ہو گئے۔ میں تمہیں عدالت میں لے کے جائوں گا۔ پھر ان سے یہ پوچھا گیا کہ آخر نواز شریف ان پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟ نجم صاحب نے صرف یہ کہا کہ صحافی عمران خان بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور چلے گئے۔ ایک اخبار میں خبر لگی ہے کہ نجم سیٹھی نے ذکا اشرف کو تیسرا پنکچر لگا دیا ہے۔ کرکٹ بورڈ میں یہ میوزیکل چیئر کب تک چلتی رہے گی۔ نجم صاحب بحال ہوتے ہی مستعفی ہو کے اپنے اخبار کے دفتر آ جاتے۔ سارے مناصب اس دفتر کی ’’طاقت‘‘ سے ملے ہیں۔ نواز شریف سے بھی گذارش ہے کہ وہ اب نجم صاحب کو کسی اور طرح نوازیں۔ وہ نوازش ہائے بے جا کے ماہر ہیں۔ وہ اب نجم سیٹھی کی بلیک میلنگ میں نہ آئیں۔ حکومت اور دولت بچانے کے علاوہ ملک بچانے کی بات کی جائے۔ حاکمو اب بس کرو۔ بے بس لوگوں کو اتنا مجبور نہ کرو۔
میں ڈاکٹر بابر اعوان کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں مگر کیا ڈبل شاہ کو بھی مبارکباد دوں۔ نجم سیٹھی کو مبارکباد دینے تک ذکا اشرف کسی عدالت کی طرف سے بحال ہو کے آ گئے تو؟ پچھلے دنوں برادرم اکرم چودھری کے گھر کھانے کے لئے وہ آ رہے تھے اور ہم جا رہے تھے۔ انہوں نے پندرہ بیس بار نواز شریف سے ملنے کی کوشش کی مگر نواز شریف نے وقت نہ دیا۔ ورنہ ذکا اشرف کا ارادہ تھا کہ اگر نواز شریف کہہ دیتے تو وہ گھر چلے جاتے۔ کیا نجم سیٹھی پاکستان میں بھارت اور امریکہ کا غیراعلانیہ سفیر ہے؟

ای پیپر-دی نیشن