بھٹہ مالکان کی فرعونیت
خشت سازی بہت قدیم پیشہ ہے۔ گئے زمانوں میں فراعین مصر اپنے مقبروں (اہراموں) کی تعمیر کیلئے بھاری بھرکم سلیں اور اینٹیں بنوایا کرتے تھے اور جو لوگ اہراموں کی تعمیر کیلئے مزدوری کیا کرتے تھے وہ ایک طرح سے فرعون (بادشاہ) کے زرخرید غلام ہوتے تھے۔ ان مزدوروں کو معاوضے میں صرف دو وقت کا کھانا ملتا تھا اور بس اور اگر کوئی مزدور اس جبری مشقت سے جان چھڑانے کیلئے بھاگنے کی کوشش کرتا تو اسے قتل کر دیا جاتا۔ چلئے وہ تو ایک قدیم زمانہ تھا اور بادشاہ صرف ملک کا ہی نہیں، رعایا کا بھی مالک ہوا کرتا تھا لیکن اب تو اس رواج کو صرف کتابوں کی حد تک رہ جانا چاہئے تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ہزاروں سال پرانی یہ فرعونیت آج کے دور میں بھی اور ہمارے ملک میں نہ صرف جاری ہے بلکہ اس پر آج تک کسی حکومت نے توجہ ہی نہیں کہ اب تو یہ جبری مشقت ختم ہو جانی چاہئے۔ اسلام کی رو سے تو مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دینا چاہئے لیکن پاکستان میں آج بھی بھٹہ مالکان فراعین مصر کی طرح غریب لوگوں سے نہ صرف جبری مشقت لیتے ہیں بلکہ انہیں پابہ زنجیر رکھتے ہیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ ان غریب لوگوں کو بھی یہ ظالم و جابر بھٹہ مالکان سوائے دو وقت کے کھانے کے کچھ نہیں دیتے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ان ظالم اور فرعون بھٹہ مالکان بھی خبر لیں اور غریب مزدوروں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں۔ بھٹہ پر کام کرنیوالے مزدوروں کی باقاعدہ اجرت مقرر کی جائے اور بھٹہ مالکان کو اس اجرت کی ادائیگی کا پابند کیا جائے اور اگر وہ اجرت دینے سے گریز کریں تو مزدوروں کیلئے کوئی شکایت سیل قائم کیا جائے جہاں وہ بھٹہ مالک کیخلاف شکایت درج کروا سکیں۔ نیز تمام بھٹہ مالکان کی باقاعدہ سرکاری طور پر رجسٹریشن کی جائے اور ان پر بھی حسب منافع ٹیکس عائد کیا جائے۔ پاکستانی مزدوروں کو قبل مسیح کے اس پتھریلے دور سے نکالنا حکومت وقت کا فرض اولین ہے۔ بھٹہ مالکان کی یہ فرعونیت اور جبری مشقت لینے کا سلسلہ صرف پنجاب کی حد تک نہیں بلکہ پورے پاکستان میں تمام بھٹہ مالکان کا یہی رویہ اور یہی طرز عمل ہے۔ اس کیلئے تو قومی اسمبلی میں ایک بل پاس اور منظور ہونا چاہئے تاکہ غریب مزدوروں کو جبری مشقت سے نجات اور محنت کا معقول معاوضہ مل سکے۔معاوضے سے یاد آیا کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز ’’برائے فروخت‘‘ ہے صرف معاوضہ دینے والا ہونا چاہئے۔ جب ہم اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بات سو فیصد نہ سہی، لیکن (99) فیصد درست ہے۔ ایک فیصد کی گنجائش ہم نے ان لوگوں کو دیکھ کر نکالی ہے جو واقعی کسی بھی قیمت پر نہیں بکتے۔ بے جان اور جاندار چیزوں کا سوائے انسان کے، تو خیر ذکر ہی کیا؟ انسان تک یہاں برائے فروخت ہے۔ کسی کی قیمت ہے، کسی کی زیادہ لیکن سو میں سے ننانوے آدمی خریدے جا سکتے ‘ ہیں صرف ایک بندہ ایسا ہے جسے کوئی بھی، کسی بھی قیمت پر نہیں خرید سکتا اور ایسے بندے کو خریدنے کی خواہش رکھنے والا تنگ آ کر قتل کر دیتا ہے یا کروا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی تاریخ غداروں اور ضمیر فروشوں سے بھری پڑی ہے‘ جب تک مسلمانوں میں سے غدار اور ضمیر فروش قسم کے لوگ کلی طور پر ختم نہیں ہو جاتے، مسلمان دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکتے جس طرح اس وقت پوری دنیا میں مسلمان ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں چھپی ہوئی اور ظاہری تمام کالی بھیڑیں چن چن کر ذبح کرنا ہوں گی ورنہ ایک دن آئیگا کہ نناوے بھیڑیں کالی ہوں گی اور صرف ایک بھیڑ سفید رہ جائیگی۔