• news

مودی زرِ یہودی … اور محکموم کی مرگِ مناجات

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کا بھرم جو طلسم کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا، ٹوٹنے میں 65 برس کا طویل عرصہ لگا مگر بالآخر بھانڈا مودی کی گنگا کے کنارے پوجا پاٹ نے اس طرح سے پھوڑا کہ بی جے پی نے الیکشن میں ارب سے زیادہ آبادی والے ملک اور پاکستان سے زیادہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو محض ایک یا دو ٹکٹ دئیے اور یہ بھی صرف اور صرف دنیا کو دکھانے اور اپنی قسمت جگانے کیلئے تھا۔ بھارتی انتخابات کے نتائج کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں میں شدید تشویش پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ادکار کمال رشید مستقل بنیادوں پر دبئی منتقل ہو گئے ہیں۔
 حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کو جس بُری طرح سے نظر انداز کیا گیا وہ لمحہ فکریہ ہے بلکہ بھارت میں قصائی کے نام سے پکارے جانے والے مودی نے صرف جعلی بھارتی اجمل قصاب کی سازش کی اور پھر انتخابات میں اس نعرے کی بنیاد پر ہی پردھان منتری چُلو بھر پانی سے کچھ زیادہ ایک لوٹے سے اشنان کر کے مسلم دشمنی کے گیان و دھیان کی وجہ سے منتخب ہو بیٹھے جبکہ ادھر یہ حال ہے کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں نظم و ضبط اور اپنے نصب العین پر مر مٹنے کیلئے لشکر طیبہ کا نام لیتے ہیں کہ حافظ سعید کے کارکن جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔
گو آر ایس ایس کا ڈسپلن بھی بہت اچھا ہے مگر انتہا پسندی کے معاملے میں انہیں اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ امام مسجد دہلی نے بھی مردِ مومن کا حق ادا کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ’’موذی‘‘ کی پارٹی کو ووٹ نہ دیں…
نریندر مودی کی پارٹی کا ٹکٹ لیکر سابق آرمی چیف وی کے سنگھ بھی پر لوک سدھارنے کی بجائے لوک سبھا میں آ چکا ہے جو انتہائی متعصب اور انتہا کا غیر مہذب انسان ہے۔ اُس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کو بہیمانہ ظلم اور زیادتی کی بالکل کھلی چُھٹی دے رکھی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ قائد کشمیر علی گیلانی نے تمام حریت پسند کشمیریوں کو گرفتار کرنے اور ان کے لیڈروں کو نظر بند کرنے پر شدت سے صدائے احتجاج بلند کیا ہے اور جلسے کر کے ان کی آزادی کی تحریک شروع کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ لشکر طیبہ کے حافظ سعید احمد نے جو کشمیر کو کسی صورت بُھلانے کو جناب مجید نظامی کی طرح تیار نہیں۔ نظامی صاحب کی طرح آزادیٔ کشمیر کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور حافظ سعید احمد اور نظامی صاحب کے درمیان وجہ پسندیدگی کا جو رشتہ قائم ہے اُس کی وجہ بھی آزادیٔ کشمیر ہے۔
حافظ سعید احمد نے مودی کے جیتنے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خوبصورت تبصرہ کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کشمیر میں ہمیں موجود پائو گے، وہاں ہماری ملاقات ہو گی۔
ہماری دانست میں بھارتی عوام اور حکمران ہمارے ایٹم بم سے نہیں ڈرتے مگر حافظ صاحب ہائیڈروجن بم کی صورت انکے ذہنوں اور عقلوں پر مسلط ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی پردھان منتری خواہ سادھوں، سَنتوں کی جنتری کے مطابق بھی چلے تو خدا کے فضل سے وہ ہمیں زک پہنچانے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہے کہ 65 سال کے ارمان اور جدوجہد کے بعد نریندر مودی کی انتہا پسند جماعت کو یہ منصب ملا ہے لہٰذا وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ منصب ملیا میٹ ہو جائے۔ خبر یہ بھی ہے کہ مودی کی جیت میں یہودی پیسہ بھی بے دریغ خرچ ہوا ہے ۔
میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں اسی جماعت کے واجپائی اپنے ایجنڈے کے ہرجائی بن کر قرارداد پاکستان کے مینار آزادی پر پہنچ کر خواہ دل سے نہ سہی، قرارداد مقاصد کو ایک حقیقت تسلیم کر چکے تھے، واجپائی مودی کو ضرور ناصح بن کر حقیقت سے آگاہ کریں گے۔
مشرف جب بھارت یاترا میں دھوتی پہننے والوں کو کپڑے بدل کر متاثر کر رہے تھے اور مسئلہ کشمیر کو آزادی دلانے کی بجائے بھارتی اور آزاد کشمیر کو آزاد ریاست قرار دینے کے چکر میں تھے مگر بھارتی وزیراعظم کو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے کسکنے نہیں دیا اور واجپائی نے مشرف کو بتایا کہ مشترکہ اعلامیے پر اسٹیبلشمنٹ دستخط نہیں کرنے دیتی اور یقیناً وہ بڑی طاقت اور بڑا ادارہ نریندر مودی کی سوچ و عزائم پر بھی بھاری ہو گا۔ پاکستان کو قدامت و انتہا پسندی کا طعنہ دینے اور سیکولر ازم پر اترانے والے عقل کے اندھے یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ لشکر طیبہ کا رویہ شیوسینا والا ہوتا تو آج حافظ سعید احمد، جماعت اسلامی کے سراج الحق یا کسی دینی جماعت کے سربراہ وزیراعظم ہوتے۔ بھارت صرف ایک کام میں ہم سے بازی لے گیا، اُس نے آزادی کے فوراً بعد جاگیر داری نظام کو یکسر ختم کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کا کسان بھی خوشحال ہو گیا اور جاگیر دار کی بجائے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ، لوک سبھا پہنچ گئے جبکہ ہمارے ہاں جاگیر داروں کی نسل در نسل حکمرانی اور سیاست کی ناکامی کی صورت میں تین دفعہ مارشل لا لگا اور ملک کو طوائف الملوکی سے بچایا گیا مگر طوائفوں کو سیاست میں آنے سے کوئی نہ بچا سکا۔
 آزادی کا مقصد، مقصد کے بغیر مادر پدر آزاد ہونا نہیں ہوتا۔ ہندوستان کو کشمیر کی آزادی کے بغیر پسندیدہ ملک کبھی قرار نہیں دینا چاہئے۔ لہٰذا مودی سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہو گا لہٰذا ہماری سودے بازی کی ماہر حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھائے تو محکموم کشمیر کی مرگِ مفاجات، آزادی کی آبِ حیات میں بدل جائے گی۔

ای پیپر-دی نیشن