• news

گوادر فری پورٹ نہیں بنے گی‘ 2017ء تک اسکا نظام چین کو سونپ دیا جائیگا‘ سینٹ میں حکومتی بیان

اسلام آباد (نامہ نگار+ ایجنسیاں) سینٹ کو وقفہ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ 2017ء تک گوادر کی بندرگاہ کا مکمل انتظام چین کے سپرد کر دیا جائے گا۔ بندرگاہ کے حوالے سے گوادر میں سرمایہ کاروں کو کسٹم و محصولات کے حوالے سے 20 برس کی رعایتوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ بندرگاہ پر فری زون کے قیام کے لئے چینی کمپنی کو 2281 ایکڑ زمین لیز پر دی جارہی ہے۔ صوبوں میں ہائر ایجوکیشن کے قیام سے پاکستان کے اس اعلیٰ تعلیمی قومی کمشن کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہو گی۔ صوبائی سطح پر ڈگریوں کے اجراء عملے کی تقرری، تحقیق، کارکردگی، وظائف کے معیار مقرر کرنے سے ایچ ای سی عالمی سطح پر  اعلیٰ تعلیمی قومی کمیشن کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہو گی۔ سینیٹر صغریٰ امام کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے بلیغ الرحمن نے کہا کہ دنیا میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ ملک میں پی ایچ ڈی کی تعداد دو ہزار سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ ہزار ہو گئی ہیں۔ ایشیا میں جامعات کی درجہ بندی میں سرفہرست جامعات میں پانچ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر برائے جہاز رانی سینیٹر کامران مائیکل نے کہا کہ گوادر پورٹ پر اب تک 165 جہاز لنگر انداز ہو چکے ہیں پورٹ پر فی الحال یوریا درآمد کیا جا رہا ہے۔ گوادر پورٹ کو سنگاپور اور دبئی کی طرح فری پورٹ قرار نہیں دیا جا رہا۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ عطاء آباد جھیل کی وجہ سے قراقرم ہائی وے کے خراب حصے کی بحالی پر کام جاری ہے۔ وزیر قانون و انصاف، اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ نیب نے اپنے قیام سے اب تک 2370 افراد کو گرفتار کیا، پلی بارگین کے ذریعے 983 افراد سے 9 ارب 87 لاکھ 97 ہزار روپے بازیاب کروائے گئے۔ نیب کے تحت پلی بارگین کرنے والے 10 سال کے لئے کوئی سرکاری عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی وہ بینکوں کی مالی سہولیات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سینٹ نے نیشنل جوڈیشل پالیسی سازی ترمیمی بل 2014ء وفاقی عدالت ایکٹ 1937 کی تنسیخ کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لئے۔ جوڈیشل پالیسی سازی بل کے ذریعے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے سیاسی صورتحال پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتا، دنیا کے کسی بھی ملک میں ڈکٹیٹر کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی، گلیوں میں یہ بحث کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فوج ناراض ہے اور کچھ ہونے والا ہے، فوج قطعاً ناراض نہیں، آئی ایس آئی چیف کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اگر دو روز کیلئے تمام چینلوں پر پابندی لگا دی جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی نارمل ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت دیگر جماعتیں جمہوریت کی حمایت میں کھڑی ہیں، تحریک انصاف والے بھی کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے، وہ الیکشن کمشن میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کوئی کینیڈا میں بیٹھا ہے کوئی دس سال اقتدار کے مزے لیتا رہا وہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دو چینلوں کی لڑائی کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے گند پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مذہبی جذبات ابھارے جا رہے ہیں جسکا نقصان ہو گا، آئی ایس آئی پر الزام عائد کر کے زیادتی کی گئی ہے اگر اس ادارے نے احتجاج کیا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نظام کو لپیٹ دینا چاہتے ہیں بلکہ مشرف کے حواری چاہتے ہیں کہ حالات خراب ہوں، مشرف کا معاملہ عدالتوں میں ہے۔ فوج ہم سے زیادہ محب وطن ہے کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ سنیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ فوج، عدلیہ، حکومت، ایجنسیوں اور میڈیا سب اہم ادارے ہیں سب نے قربانیاں دی ہیں، فوج نے سب سے ذیادہ قربانیاں دی ہیں، خفیہ اداروں کا کردار بھی قابل تحسین ہے، ہم انہیں بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو کارگل کی جنگ میں پرویز مشرف کی بھینٹ چڑ گئے، آج تک کسی نے ہتھیار ڈالنے والوں اور آمروں کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا، میڈیا، ایجنسیوں اور جرنیلوں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن اس ملک کیلئے تمام لوگوں نے قربانیاں بھی دیں، غلطیوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غلطیوں کو دور کیا جائے۔ کارگل میں کس کی غلطی سے ہمارے تین ہزار جوان شہید ہوئے، مشرف کو کسی نے سزا نہیں دی، قانون سزا دینا چاہے تو اسے بچانے کیلئے حواری آجاتے ہیں، میڈیا نے جس طرح ایک دوسرے کو ننگا کیا ہے اس سے لوگوں کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اہل بیتؓ کی توہین قابل مذمت ہے، جنرل ظہیر الاسلام کی فوٹیج چلائی گئی شاید یہ ہمیشہ انکا تعاقب کرے۔

ای پیپر-دی نیشن