’’دعوت نامہ ۔۔۔ عداوت نامہ؟‘‘
اپنے 22 مئی کے کالم میں مَیں نے محترم مجید نظامی کی ’’ چھڑی‘‘ کا تذکرہ کِیا تھا جو انہوں نے 20 مئی کو ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور کی تقریب میں لہراتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’مَیں نے یہ چھڑی بھارت کو سِیدھا کرنے کے لئے اُٹھائی ہے‘‘۔ میرے خیال میں بھارت کی بھی یہی کیفیت ہے کہ
’’مُدّت سے آرزو ہے کہ سِیدھا کرے کوئی!‘‘
مجھے جنابِ نظامی کی چھڑی سے اپنے والدِ مرحوم رانا فضل محمد چوہان یاد آگئے جو تحریکِ پاکستان کے دَوران آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کو سِکھوں اور ’’ہِندوُمہا سبھا‘‘ کے غُنڈوں سے لڑنے کے لئے ’’لٹھ بازی ‘‘ سِکھایاکرتے تھے اورجنہیں محترم مجید نظامی صاحب نے گولڈ میڈل دِلوا کر مجھے اور میرے خاندان کو رُوحانی طور پر مالا مال کر دِیا ہے۔
’’ایوانِ صدر کی لکڑیاں‘‘
پھِر میری نظر ایک خبر پر پڑی کہ ’’وفاقی ترقیاتی ادارے (C.D.A) کے شعبہ ماحولِیات کے افسروں نے شاید ’’مخولِیات‘‘ کے فروغ کے لئے ایوانِ صدر سے کاٹی گئی۔ 25 ہزار من لکڑیاں ایک ہی ٹھیکیدار کو 50 ہزار روپے میں فروخت کر دِیں‘‘۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ لکڑیاں صندل کی تھِیں یا صنوبر کی؟ ظاہر ہے کہ ادنیٰ درجے کی تو نہیں ہو سکتِیں۔ اگر سی ڈی اے کے افسران اور لکڑیاں خریدنے والا ٹھیکیدار مان جائیں تو مَیں اپنے پلّے سے 50 ہزار روپے ادا کرکے اور وہ لکڑیاں خرید کر صدر ممنون حُسین صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کو تیار ہُوں۔ اِس شرط پر کہ ہمارے سُخن ور صدر اُن لکڑیوں کو ’’امن کی آشا‘‘ پروگرام کے تحت بھارتی وزیرِاعظم شری نرِیندر مودی جی کو بطور ’’اُپہار ‘‘ (تحفہ) بھجوا دیں۔ اِس درخواست کے ساتھ کہ جب بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی بڑا لیڈر آنجہانی ہو جائے تو یہ لکڑیاں اُس کی ’’چِتا‘‘ جلانے کے لئے استعمال کی جائیں سی ڈی اے کے افسران مُجھ سے تعاون کرتے رہیں تو مَیں اُس کے بعد بھی حاضر رہوں۔
’’گھرگھر ایہو اگّ!‘‘
اپنے پیاروں کے اِس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کے سفر کا دُکھ زندگی بھر رہتا ہے جب تک ہماری اپنی زندگی ختم نہ ہو جائے۔ اپریل کے اواخر میں سینئر بیوروکریٹ‘ مُنفرِد شاعر‘ ادِیب‘ دانشور‘ مُصنّف اور ایک بہت ہی مُخلِص انسان جناب جاوید احمد قریشی اپنے پیاروں سے رُخصت ہُوئے تو مَیں نے 30 اپریل کے کالم میں مرحُوم کو یاد کِیا۔ اُن کے اور میرے کئی دوستوں نے مُجھے ٹیلی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے میرے ساتھ دُکھ سانجھا کِیا۔ مرحوم کے کئی ایسے دوستوں نے بھی رابطہ کِیا‘ جِن سے مَیں کبھی نہیں مِلا۔ جناب جاوید احمد قریشی (مرحوم) کے صاحبزادے جناب جواد احمد قریشی کا ٹیلی فون آیا اور اُن کی والدہ (محترمہ بیگم نجمہ جاوید احمد قریشی) کا خط بھی مِلا۔ جناب جاوید احمد قریشی کے بعد اُن کے خاندان پر کیا بِیت رہی ہے؟ یہ تو وہی جانتے ہیں۔ مَیں تو شریکِ غم ہُوں ۔ محترمہ بیگم نجمہ جاوید قریشی لِکھتی ہیں۔
’’بے حد محترم اثر چوہان صاحب السلام علیکم! میرے شوہر جاوید قریشی کے دُنیا سے رُخصت ہونے کے موقع پر آپ کا کالم پڑھ کر ایسا لگا جیسے جاوید کا غم منانے میں آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہیں اور ہمارے دُکھ کو محسوس کر رہے ہیں۔ جیسا آپ نے لِکھا ہے۔ جاوید کی شخصیت کی کتنی ہی پرتیں تھِیں۔ آپ نے اُن کا ذِکر بہت خوبصورت انداز میں کِیا ہے۔ اور باتوں کے سِوا آپ نے اُن کی انسانوں سے محبت‘ فن اور فنکاروں سے عملی ہمدردی‘ حُسنِ اخلاق‘ پُروقار‘ بااصُول انسان دوست‘ انتظامی کارکردگی اور اعلیٰ شعری تخلیقی صلاحِیت کا ذِکر بہت اثر انگیز انداز میں کِیا ہے۔ اُن کا سوگ منانے والوں میں بہت سے فنکار‘ اخبار نویس‘ شاعر‘ دانشور اور عام انسان شامل ہیں۔ یہ جاوید کی خُوش نصیبی ہے اور ہماری بھی آپ کے تعزیتی کالم کے لئے مَیں میرے بچّے اور خاندان کے تمام افراد آپ کے تہہ دِل سے شُکر گُزار ہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصِر ہو۔
صُورت یہ ہے کہ جِس انسان سے ہمارا کوئی تعلق اور واسطہ ہوتا ہے اُس کی رحلت کے بعد جب ہم اپنے دل و دماغ میں اُس کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں تو ہمیں اپنے پیارے بھی شِدّت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ پنجابی کے پہلے صُوفی شاعر حضرت بابا فرید شکر گنج نے بھی شاید اِس کیفیت میں کہا تھا کہ؎
’’مَیں جانا دُکھ مجھی کو‘ دُکھ سبھائے جگّ!
اُچّے چڑھ کے دیکھیا تاں گھر گھر ایہو اگّ!‘‘
یعنی مَیں جانتا تھا کہ دُکھ صِرف مجھ کو ہی مِلا ہے لیکن دُکھ تو ساری دُنیا کے انسانوں کا حِصّہ ہے۔ جب مَیں نے اونچائی پر چڑھ کر نیچے (دُنیا کی بستِیوں پر) نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہاں کے ہر گھر سے دُکھ کی آگ کا دُھواں اُٹھ رہا ہے۔
’’دعوت نامہ ۔ عداوت نامہ؟‘‘
بھارت کے نو منتخب وزیرِاعظم شری نرِیندر مودی نے ہمارے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو اپنی حلفِ برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ دُشمن کے گھر مرگ ہو جائے تو وضع داری نِبھانے کے لئے اُس سے مِل کر پُرسا دینے کا رواج تو ہے لیکن اُس کی خُوشیوں میں شریک ہونے کا نہیں۔ اِس موقع پر دُشمن سے نہیں کہا جا سکتا کہ ’’میزبانِ محترم! آپ ہمارا مقبوضہ گھر لُوٹا ہُوا مال و اسباب اور ہمارے قید کئے گئے لوگ ہمارے حوالے کر دیں‘‘۔ بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم جنابہ حسِینہ واجد شیخ کی بات اور ہے کہ جنہوں نے مودی جی کو پہلے ہی سَندیسہ بھجوا دِیا کہ ’’مہاراج! آپ بنگلہ دیش کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں‘‘۔ مُسلم بنگال کے لوگ ’’دوسرا گھر‘‘ کی ترکیب کِن معنوں میں استعمال کرتے ہیں؟ مَیں نہیں جانتا۔ وزیرِاعظم دلی جائیں یا نہ جائیں؟ اِس بارے میں موصوف اپنے اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گُزرے گا تو شاید وہ فیصلہ بھی کر چُکے ہوں۔ ’’بھارت گُزیدہ‘‘ اہلِ پاکستان نے تو اپنے محبوب وزیرِاعظم سے درخواست کر دی ہے کہ؎
’’طوافِ کُوئے ملامت کو اب نہ جا اے دِل!
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک، اُڑا اے دِل!‘‘
عدُو کے دعوت نامہ کو آپ ’’عداوت نامہ‘‘ ہی جانیں اور ’’تھوڑے لِکھّے نُوں بوہتا سمجھیں!‘‘۔