• news

’’چنتا نہیں تم تو امر ہو‘‘

   افغانستان کے صوبہ ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ ہونے کے فوراً بعد نریندر مودی نے کابل میں بھارتی سفیر امرسہنا کو فون کیا اور کہا کہ ’’ہمیں چنتا نہیں ہے  کیوں کہ آپ تو امر ہیں‘‘ اس حملہ کے بارے میں ٹائمز آف انڈیا نے جو ایک پاکستانی میڈیا ہاؤس کا پارٹنر ہے  ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ آئی ایس آئی نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ بھارت اورنریندر مودی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کیا ہے۔نریندر مودی نے افغان صدر حامد کرزئی کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ اس حملے کے پیچھے کون ہے؟ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ پاکستان کے مغربی علاقہ میں موجود مجاہدین نے کیا ہے۔ہرات کا بھارتی قونصلیٹ مغرب میں ایران کی سرحد پر واقع ہے جو پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحدسے کہیں دور ہے لیکن اس حملے کو آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملے کا مقصد  نوازشریف کے دورہ بھارت کو سبوتاژ کرنا ہے دوسری طرف بھارت میں بی جے پی کی مخالف جماعت کانگرس نے بھارتی وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ جب پاکستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے آئیں گے تو ان کے سامنے دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا جائے۔
  وزیراعظم نوازشریف نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ تو پہلے کرلیا تھا لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دورے کا اعلان وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی لاہور میں آرمی چیف سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ اس ملاقات کے بعد وزیرعظم ہاؤس کے ترجمان نے اعلان کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کریں گے۔27مئی کو  وزیراعظم نوازشریف کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات ہوگی۔ جس میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر تبادلہ خیال ہوگا۔سرحد کے آر پار رہنے والے  کشمیری لیڈروں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فی الحال موجودہ حالات میں  بھارت نہ جائیں لیکن وزارت خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ ضرور  بھارت جائیں تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا آغاز ہوجائے۔ایک خبر یہ گردش کر رہی تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے پہلے  سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مشورہ کریں گے ممکن ہے کہ انہوں نے مشورہ کیا ہو لیکن اس کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ہمارے وزیراعظم ایسے وقت میں بھارت جارہے ہیں جب بھارت میں ایک انتہا پسند ہندو جماعت کے رہنما وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ان پر کانگرس  سمیت دوسری سیاسی جماعتوں‘ بھارتی میڈیا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا  دباؤ ہے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم سے دہشت گردی کے معاملے پر بات کریں۔ان کے پیش رو من موہن سنگھ کو سابق صدر آصف  علی زرداری نے  پاکستان کا دورہ کرنے کی کئی  دعوتیں دی تھیں لیکن من موہن سنگھ نے جو چکوال میں اپنے آبائی گاؤں گاہ کو دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔کیوں کہ  ان پر بی جے پی اور بھارتی میڈیا اور ملٹری کا دباؤ تھا کہ جب تک پاکستان ممبئی کے حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں  لاتا پاکستان کا دورہ نہ کریں۔
  وزیراعظم نوازشریف ایسے وقت میں  نئی دہلی جارہے ہیں جب نریندر مودی پر  بھی دباؤ ہے کہ وہ دہشت گردی پر بات کریں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں اس وقت ماحول کیا ہے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ بھارتی میڈیا پاکستانی وزیراعظم کو دہشت گردی کے معاملے میں الجھائے گا اور اب شاید ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالے گا۔یہ بات بھی بھارتی میڈیا میں تواتر کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ نوازشریف نریندر مودی ملاقات میں کوئی ٹھوس بات چیت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف نے 1999ء میں  بی جے پی کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور مسائل حل کرنے کے لئے ایک کوشش کی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے ساتھی کہہ سکتے ہیں کہ  کوشش کارگل آپریشن نے ناکام بنا دی تھی لیکن اس کے بعد جنرل مشرف نے جو فوج کے سربراہ اور پاکستان کے طاقت ور صدر  تھے بھارت کو کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے پاکستان کا اصولی مؤقف چھوڑ کر کئی رعائتیں دیں لیکن بھارت نے ان تجاویز کا جواب نہیں دیا۔مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے منشور میں یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پارٹی آئین کے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر  کو بھارت کا حصہ بنائے گی ایسی جماعت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کشمیر یا پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ڈیم بنانے کے معاملے پر پاکستان کو کوئی رعایت دے گی۔اس کے بعد تو پھر تجارت ہی رہ جاتی ہے تجارت تو بھارت کے لئے زیادہ  سود مند ہے۔وہ پہلے بھی پاکستان کو تجارت شروع کرنے اور پیپلز ٹو پیپلز رابطے  شروع کرنے کی تجاویز دیتا رہا ہے۔ بھارتی لیڈرز ہمیشہ کشمیر کو  آخر میں رکھنے کے خواہش مند رہے ہیں اور نریندر مودی  تو بھارت کو ایک بڑی طاقت بنانے کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں بہتر ہوتا کہ پاکستان کے سارے سیاسی لیڈر نوازشریف کو ائرپورٹ پر الوداع کہنے کے لئے جاتے۔بالکل اس طرح جس طرح  ذوالفقار علی بھٹو کو اپوزیشن لیڈروں نے اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لئے ائرپورٹ سے رخصت کیا تھا اور یہ پیغام دیا تھا کہ قوم وزیراعظم کے ساتھ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن