وزیراعظم حقیقی پاکستانی لیڈر بن کر بھارت جائیں
میاں نواز شریف کا دورہ بھارت .... توقعات، مضمرات اور ردعمل
وزیراعظم میاں نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کے لئے آج بروز پیر نئی دہلی روانہ ہو رہے ہیں۔ گذشتہ روز ان کی جانب سے نریندر مودی کی دعوت قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا کوئی وزیراعظم بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کر رہا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس اور دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ دورہ¿ بھارت کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ بھارتی صدر پرناب مکھر جی سے بھی ون آن ون ملاقات کریں گے۔ ان کے بقول ان ملاقاتوں میں پاکستان بھارت جامع مذاکرات بحال کرنے پر بات ہو گی اور یہ خطے میں امن کوششوں کو آگے بڑھانے کا اہم موقع ہو گا۔ میر واعظ عمر فاروق اور دوسرے کشمیری رہنماﺅں کے علاوہ بھارتی مسلمانوں نے بھی میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی سمیت متعدد سیاسی قائدین نے بھی میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کو مستحسن قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس امر پر زور دیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھارتی لیڈران کے ساتھ کشمیر پر بھی بات کریں۔ اس کے برعکس امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے اس امر پر زور دیا ہے کہ وزیراعظم اپنے دورہ¿ بھارت پر نظرثانی کریں۔
وزیراعظم نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ بھی منظرعام پر آئی ہے جس کے مطابق 64 فیصد پاکستانیوں نے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کی مخالفت اور صرف چار فیصد نے حمایت کی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل سچویشن سنٹر آف ریسرچ کی تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق 21 فیصد افراد کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو دورہ¿ بھارت کے معاملہ میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے اور مودی حکومت کی پاکستان کے حوالے سے خارجہ پالیسی کا انتظار کرنا چاہئے۔ سروے رپورٹ کے مطابق ملک کے 58 فیصد سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں نے بھی میاں نواز شریف کو بھارت نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔
دنیا کی ریاستوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے پُرامن بقائے باہمی کے تسلیم شدہ آفاقی اصول کے تحت تو اس خطے کی ریاستوں کے مابین بھی برابری کی بنیاد پر دوطرفہ خیرسگالی کے مراسم استوار ہونے چاہئیں جو علاقائی امن و آشتی اور ترقی و استحکام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اگر قیام پاکستان کے بعد بھارت بھی اس آفاقی اصول کے تحت پاکستان کو شروع دن سے ہی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیتا اور تقسیمِ ہند کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کر لیتا تو بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے کہ آج برصغیر کے عوام ترقی و خوشحالی کی کتنی منازل طے کر چکے ہوتے اور اقتصادی طور پر کتنے مستحکم ہو چکے ہوتے، مگر بھارتی لیڈران نے تو شروع دن سے ہی پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ طرزِ عمل اختیار کر لیا تھا جو قیامِ پاکستان کے 67 سال گزرنے کے باوجود آج بھی قائم ہے اور بھارتی لیڈران اپنی سیاست ہی پاکستان مخالفت پر چمکاتے ہیں بالخصوص بھارتی انتہا پسند لیڈروں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کا ٹریک ریکارڈ تو اس معاملہ میں انتہائی خراب ہے جو پاکستان دشمنی پر مبنی اپنے منشور اور ایجنڈے کو بھارتی مسلمانوں کی قتل و غارت گری اور پاکستان سے آئے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ دنگا فساد، بلوﺅں اور سمجھوتہ ایکسپریس اور دوستی بس پر حملوں کی صورت میں عملی جامہ پہناتی ہے۔ اسی طرح سابق حکمران کانگرس آئی بھی پاکستان دشمنی میں کبھی پیچھے نہیں رہی اور پاکستان کو 71ءکی پاک بھارت جنگ میں دولخت کرنے کا بھی اسی پارٹی کی قیادت فخریہ انداز میں کریڈٹ لیتی ہے جبکہ کشمیر کو بھارتی اٹوٹ انگ قرار دے کر اور اس پر اپنا تسلط جمائے رکھنے کی خاطر پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر کے بھی بھارتی لیڈران نے پاکستان کی بقا کو مستقل طور پر خطرات سے دوچار کیا ۔ اس صورتحال میں پاکستان کا کوئی لیڈر مسئلہ کشمیر کے یو این قراردادوں کی روشنی میں آبرومندانہ حل کے بغیر بھارت کے ساتھ یکطریہ دوستی کی بات کرے گا تو اسے عوام کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ملک کی سلامتی سے متعلق ہمارے قومی مفادات کا یہی تقاضہ ہے کہ بھارت کے ساتھ دوسری دنیا کی طرح خیرسگالی کے دوستانہ تعلقات سے پہلے اس کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ معاملات طے کئے جائیں ۔اگر اب تک کوئی بھارتی حکومت اس راہ پر نہیں آئی اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہی ہر بھارتی حکومت کا مطمع¿ نظر رہا ہے تو ہمارا کوئی حکمران اس بھارتی طرزِ عمل کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم استوار کر کے اپنے عوام کی مخالفت مول لینے کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے جبکہ بھارتی لیڈران خود بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کوئی تنازعہ حل کرنے کی راہ پر نہیں آ رہے بالخصوص مسئلہ کشمیر کا تو ذکر سُننا بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔
پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد تو بھارت کے ساتھ جارحانہ دفاعی پالیسی اختیار کرنا ہر پاکستانی حکمران اور لیڈر کی مجبوری بن گیا تھا چنانچہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو بھی یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ہم کشمیر کی آزادی کیلئے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کو بھی تیار ہیں۔ جنرل ضیاالحق کی سیاسی بقاءجس کا دارو مدار ہی بھارت دشمنی پر مبنی ان کی پالیسی پر تھا جنہوں نے باضابطہ طور پر بھارت کو پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا احساس بھی دلا دیا تھا جبکہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار اور پیپلز پارٹی کے گذشتہ دورِ حکومت میں بھی بھارت کے لئے وارفتگی کے جذبات کے باوجود اس پارٹی کے قائدین بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کے لئے کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کر سکے اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی اس پارٹی کی سابق حکومت کی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف نے پاکستان کی خالقِ جماعت مسلم لیگ کے قائد ہونے کی حیثیت میں ملکی مفادات کے تقاضوں اور قومی امنگوں کے قطعی برعکس نہ صرف بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے یکطرفہ جذبات کا اظہار کیا بلکہ گذشتہ سال 11 مئی کے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آتے ہی اپنی بھارت نواز پالیسیوں کو عملی جامہ بھی پہنانا شروع کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف بھارتی وزیراعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی بلکہ کسی باضابطہ دعوت نامے کے بغیر بھارت جانے کا بھی اعلان کر دیا۔ ان کی کابینہ کے رکن خرم دستگیر وزیر تجارت کی حیثیت سے بھارت کے لئے ریشہ خطمی ہونے اور اسے ایم ایف این کا سٹیٹس دینے کی خواہش کے اظہار کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے کبھی کبھی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی بھارت کے لئے ریشہ خطمی¿ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حکمران بی جے پی کے قائدین پاکستان دشمنی پر مبنی اقدامات پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی مقابلہ بازی ہو تی رہی ہے جس کا واضح ثبوت حالیہ بھارتی انتخابات کی مہم ہے جس میں کانگرس آئی اور بی جے پی دونوں نے اپنے اپنے منشور کی بنیاد پاکستان دشمنی پر رکھی۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف کی حکومت بھارت کے لئے جتنی تجارتی آسانیاں پیدا کر تی رہی ہے بھارتی حکمرانوں کی جانب سے اتنا ہی پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس فضا میں میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کو ان کی سیاسی حماقت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور دفترِ خارجہ نے اسی تناظر میں انہیں بھارت نہ جانے کا مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے اپنے ایجنڈے کے مطابق دورہ¿ بھارت کے لئے نریندر مودی کی دعوت قبول کرنا ہی مناسب سمجھا۔ اب چونکہ وہ اپنے پختہ عزم و ارادے کی بنیاد پر آج بھارت روانہ ہو رہے ہیں اس لئے انہیں اس موقع پر ملک کے مفادات کو ہرگز بٹہ نہیں لگنے دینا چاہئے اور بھارتی قائدین کے ساتھ بالخصوص کشمیر ایشو پر پاکستان کے اصولی مو¿قف کے مطابق کھل کر بات کرنی چاہئے، اس پر انہیں مودی اور دوسرے بھارتی لیڈران کے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے انہیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ انہوں نے دورہ¿ بھارت کا فیصلہ درست کیا ہے یا غلط کیا ہے۔ اگر وہ بھارتی صدر، وزیراعظم اور دوسرے لیڈران سے ملاقات کے موقع پر کشمیر ایشو کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتے اور یہ مسئلہ حل کرائے بغیر ہی بھارت سے دوستی اور تجارت پر اتفاق کرتے ہیں تو ان کا یہ اقدام ان کی سیاسی موت کی بنیاد بن جائے گا۔ اول تو انہیں دفترِ خارجہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے دورہ¿ بھارت کے لئے مودی کی دعوت قبول نہیں کرنی چاہئے تھی اور اگر انہوں نے بھارت جانا ہی مناسب سمجھا ہے تو انہیں کشمیر اور پانی پر پاکستان کا مضبوط کیس ساتھ لے کر جانا چاہئے، قوم اس وقت کسی بھی محاذ پر دشمن کے ہاتھوں پسپائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میاں نواز شریف دورہ¿ بھارت میں ملکی اور قومی مفادات کی نگہبانی کے حوالے سے اپنی کوئی کمزوری دکھا آئے تو واپسی پر انہیں سخت قومی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے انہیں اپنے دورہ¿ بھارت کے تمام سود و زیاں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ قوم ان سے حقیقی پاکستانی لیڈر بننے کی توقع رکھتی ہے۔