مردان خدا کی تکبیر
اُحد میں لشکر اسلام کے علمبردار حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے۔جو اپنی جگہ پر بڑی جرا¿ت اورپامردی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ اچانک کفار نے آپ کو اپنے حملوں کا ہدف بنالیا۔ وہ چاہتے تھے کہ لشکر اسلام کا پرچم سرنگوں ہوجائے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہوجائیں ،کافروں نے آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا، انھوںنے فوراً ہی پرچم کو اپنے بائیں ہاتھ سے تھام لیا اوریہ آیت تلاوت فرمانے لگے ،مَا مُحَمّدالاّ رَسو ل،دشمن نے وار کرکے آپ کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو آپ نے اپنے کٹے ہوئے بازﺅں سے پرچم کو اپنے سینے سے لگالیا۔ یہاں تک کہ اپنی جان ، جانِ آفریں کے سپرد کردی اور حضرت علی المرتضیٰ نے آگے بڑھ کر پرچم کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔
اسی اثنا میں کفار کے علمبردار طلحہ ابن ابی طلحہ نے للکارکرکہا ،ھل من مبارزہے کوئی مجھ سے پنجہ آزمائی کرنے والا؟کسی نے فوری طور پر اس للکار کا جواب نہ دیا، تو وہ کہنے لگا ،اے محمد (علیہ الصلوٰة والسلام )کے صحابہ تمہارا تویہ خیال ہے کہ تمہارے مقتول جنت میں ہیںاورہمارے مقتول دوزخ میں،لات کی قسم !یہ جھوٹ ہے،اگر تم سچے ہوئے تو تم میں کوئی میرے مقابلے کے لیے ضر ورنکلتا۔اس کی یہ لاف سنی تو حیّدرکراراللہ کا نام بلند کرتے ہوئے ،میدانِ کارزار میں نکل آئے۔شیر خدا نے اس کو لمحہ بھر بھی سنبھلنے کا موقع نہ دیا اوربرقِ صاعقہ کی طرح اس پر حملہ آوار ہوگئے۔ ذوالفقار حیدری کے ایک ہی وار نے اسے زمین چاٹنے پر مجبور کردیا۔ غرور ونخوت کا وہ پیکر جو چند لمحے قبل شیخیاں بگھاررہا تھا ،اب شدت کرب سے ٹرپ رہاتھا لیکن آپ نے دوسرا وار کرکے اسے جہنم واصل نہ کیا،کیونکہ سواری سے گرتے ہوئے اس کی شرمگاہ برہنہ ہوگئی تھی اوراہلِ حیاءومروّت کا یہ شیوہ نہیں کہ دشمن کو ایسی حالت میں موت کے گھاٹ اتار اجائے۔لیکن وہ ضربتِ حیدری کے ایک وار کی بھی تاب نہ لاسکا اورکچھ ہی دیر بعد دم توڑ گیا۔
ایک اورمشرک میدان میں نکلا اورھل من مبارز کا آوازہ بلند کیا۔جب اس نے تیسر ی بار یہی چیلنج دیا تو حضرت زبیر بن عوام سے نہ رہا گیا۔ وہ شتر سوار تھا،آپ نے بھی چھلانگ لگائی اوراونٹ پر سوار ہوگئے اوراس سے جنگ آزماہوئے ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ منظر ملاحظہ فرمارہے تھے۔آپ نے ارشادفرمایا جو زمین پر گرے گا، وہ مارا جائے گا۔ حضرت زبیر نے اسے ایک ایسی ضرب رسید کی کہ وہ اپنے کو سنبھال نہ سکا اورنیچے گرگیا ،آپ نے اس پر چھلانگ لگائی اوراس کا سرکاٹ لیا، اس جرا¿تِ بے مثال پر سرکار نے آفرین کی اورفرمایا ”ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے میرا حواری زبیر ہے“پھر فرمایا اگر زبیر اس کے مقابلے کے لیے نہ نکلتے تومیں خود اس کی دعوتِ مبارزت قبول کرتا۔