• news

زنجیری عمل:قیادت تضادات کی یا قوم کی؟

 ماضی کے جھروکے سے دیکھتے ہیں، تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ :
 بھٹو، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان سے شدید نفرت کرتا تھا لیکن دونوں کی کابینہ میں وزیر رہا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ امیر مگر سوشلسٹ تھا، وہ مغربی اندازِ فکر رکھتا تھا لیکن بیویاں دو۔ جمہوریت کا راگ الاپتے تھے مگر ان کی لائبریری میں سولینی، ہٹلر اورنپولین کی کتابوں پر سب سے زیادہ دیدہ زیب جلدوں کا اہتمام ہوتا۔سوئیکارنو اور ناصر اس کے دوست تھے۔ کبھی کبھی تو بالکل ہی سمجھ نہیں آتی کہ جب وہ زرعی اصلاحات پر آتا ہے تو اس کے اپنے 7 ہزار ایکڑ اس کی نذر ہوجاتے ہیں اور خاندان کے 45 ہزار ایکڑ بھی!!! اگر بھٹو طاقت سے محبت کے بجائے عوام کا احساس کرتا تو اُس کے دور میں پاکستان آسمان کو چھو سکتا تھا لیکن یہ ظالم محبت زر، زن اور زمین سے بھی زیادہ جب طاقت اور حصول طاقت سے ہوجائے تو عاشق کو بھی معلوم نہیں رہتا کہ وہ کس قدر ظالم ہوتا جارہا ہے یا خود غرض .... بھٹو کی طاقت پر جب جنرل ضیاءالحق کی طاقت غالب آگئی تو اُس طاقت نے روٹی کپڑا اور مکان کے لالچ میں بھٹو سے محبت کرنے والوں سے اسلام کے نام پر محبت اور طاقت چھین لی۔ جنرل ضیاءالحق نے 10 سال سے زائد عرصہ اسلام کے نام پر گزرا، چُن چُن کر بھٹو سے نفرت کرنے والوں کو اپنا مطیع کرلیا۔ اس دور میں اسلام کا نفاذ عمل میں آسکتا تھا انکے اپنے جنرل فضل حق جو ان کے اپنے گورنر تھے وہ اور اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو کے سوا سارا پاکستان ان سے ڈرتا تھا، راستے کی دیوار کوئی نہ بچی تھی، راستہ ہموار تھا پھر بھی اسلام نافذ نہ کیا گیا۔ کیوں ؟”کوئی اپنا وہم تھا درمیان یاگھٹا نے اُس کو ڈرا دیا ! “ پس ثابت ہوا کہ، اُس کے بعد نہ کسی نے اسلام کے نفاذ کی کوشش کی اور نہ کسی نے چاہا کیونکہ جنرل ضیاءالحق نے ثابت کردیا تھا کہ اسلام کا نفاذ میری طاقت اور ” محبت“ نہ کرسکی تو اور کوئی کیسے ....؟ گویا باب ہی بند!!!
 عوا م کے ” لائی لاگ“ ہونے کے سبب سیاستدانوں کا بےوفا اور اقتدار پسند رہنما ایک ” زنجیری عمل ‘ CHAIN REACTION بن چکا ہے .... چین ری ایکشن!!
 یہ سیاسی اختلافات بھی کیا عجب شے ہے۔ دل ٹوٹے یا جڑے لیکن اقتدار کا زنجیر ی عمل نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ آج کے ہونہار وزیر داخلہ ایک موقع پر کلثوم نواز شریف کی وجہ سے ن لیگ چھوڑ کر پی پی پی میں جانے کے درپے تھے۔ یہ بات ہے اُس دور کی جب مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا اور بظاہر سامنے کلثوم نواز ہی سیاسی پلیٹ فارم پر نظر آرہی تھی لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چوہدری نثار علی خان کل بھی میاں نواز شریف کے مخلص دوست تھے اور آج بھی۔ اور شاید آج کے دور میں اڑھائی وزراءمیں واحد ہوں گے جو میاں نواز شریف کے سامنے بات کرنے اور دلیل پیش کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ تو نوجوان نثار علی خان نے ضیاءالحق کو بھرے وزیری مجمعے میں کہہ دیا تھا کہ یہ وزیر غلط کہہ رہے ہیں آپ عوام میں اتنے مقبول نہیں جتنا یہ ثابت کررہے ہیں۔ ایک دفعہ 8وزیر بہت باتیں اور غیبتیں کرتے تھے کہ میاں نواز شریف یہ اور وہ، میٹنگ بھی نہیں بلاتے یہ ہیوی مینڈیٹ دوسرے دور حکومت کی بات ہے۔ جب نثار علی خان کی کوششوں سے میٹنگ ہوئی آٹھوں وزراءخوشامد کرنے لگے۔ بقول نثار علی خان انہوں نے توقع کے برعکس خوشامدکی انتہاءکردی اور میں نے کہا ” آج ہی کیبنٹ سے ایک قانون پاس کرائیں جس کے تخت خوشامد اور خوشامدیوں پر قانونی پابندی ہونی چاہئے !!!“ میاں نواز شریف ناراض ہوگئے تو پھر شہباز شریف نے صلح کرائی۔ تاریخ آج بھی سب جذب کر رہی ہے۔ راوی آج بھی لکھ رہا ہے کل تک عمران خان سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جانثار تھے۔ آج تنقید کر رہے ہیں۔ کیا کہیں پھر اُس وقت کا صدر زرداری درست تھا یا عمران خان کی جانثاری۔ مشرف کی ق لیگ کل تک بہت بُری تھی اور آج اتحادی.... گرگٹ کی طرح بدلتے سیاستدانوں، اقتدار پسندوںاور موقع پرستوں کے رنگ دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کا بُرا آصف علی زرداری آنے والے دنوں میں عمران خان کیلئے پیارا اور بہت پیارا ہوسکتا ہے۔ آہ! میرے بھولے عوام:
 ایک ن لیگی ایم این اے اور جماعت اسلامی کے ایک رکن کی موجودگی میں مجھے ایک معروف صحافی نے بتایا کہ ” میاں نواز شریف سے میں نے اٹک قلعہ میں جب ملاقات کی تو اُنہوں نے مجھے ایک چٹ دی جو کلثوم نواز شریف کو دینی تھی‘ اور اس پر قلم بند تھا کہ میرے (صحافی) اور شجاعت حسین کے علاوہ کسی پر اعتماد نہ کرنا !“ مگر میاں نواز شریف کو تو خود یہ تجربہ تھا کہ، اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے اپنا ڈارلنگ ڈھونڈ لیتی ہے لیکن یہ بھی تو دیکھئے ، چوہدری شجاعت حسین اس ” اعتماد“ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ” نواز شریف نے جیل ہی سے انہیں ، میاں اظہر، اعجاز الحق اور چند دیگر لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا تھا “۔ پھر شجاعت حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو معلوم تھا کارگل میں کیا کچھ ہورہا ہے جبکہ میاں نواز شریف تو ہر شو میں اپنے آپ کو مشرف سے نالاں شو کرتے رہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ پھر ا س تاریخی حقیقت کا کوئی کیا کرے کہ میاں نواز شریف کبھی جنرل افتخار خان برادر چوہدری نثار علی خان کو بطور چیف آف جنرل سٹاف ایکسٹینشن دیناچاہتے تھے۔ اگر ایسا ہوجاتاتو جنرل مشرف اور جنرل علی قلی خان سمیت 12 جرنیل ترقی پائے بغیر گھر چلے جاتے مگر اُس ایکسٹینشن کے راستے کی دیوار اُس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت تھے۔ مختصر یہ کہ، چوہدری نثار علی خان نے علی قلی خان کا آرمی چیف بننے کا راستہ روکا وہ اور ان کے بھائی جنرل افتخار علی خان کی چاہت تھی کہ مشرف آرمی چیف بنیں۔ سو وہ بنے اور خوب بنے !
 جی ہاں! ” عوام کے لائی لگ ہونے کے سبب سیاستدانوں کا بے وفا اور اقتدار پسند رہنا ایک زنجیری عمل بن چکا ہے !“ مگر عوام جانے کب سمجھیں گے ....کب؟
 دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی
 جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

ای پیپر-دی نیشن