پردھان منتریوں کا آج کا امتحان
یہ تو عام فہم سی بات ہے کہ میاں نواز شریف اگر بغیر دعوت کے بھی بھارت جانے کو بھی تیار تھے تو اب وہ بھارتی نامزد وزیراعظم کی باضابطہ دعوت کو رد کرتے ہوئے بھارت کی جانب اُٹھنے کے لئے پہلے ہی سے آمادہ قدم کیسے روک سکتے تھے، دفتر خارجہ تو انہیں غلط پٹیاں پڑھاتا رہا کہ ان کا موجودہ حالات میں بھارت جانا مناسب نہیں ہو گا۔ بھئی، جو انہوں نے ٹھانی ہوتی ہے اور جو سودا ان کے دل میں سمایا ہوتا ہے، وہی ان کیلئے مناسب ہوتا ہے۔ وہ تو خود ایک تقریب میں ایک سردار جی کے حوالے سے لطیفے کے انداز میں اپنے دل کی حقیقت بیان کر چکے ہیں کہ جو کہہ دیا سو کہہ دیا، اس میں نفع نقصان کا کیا سوچنا۔ سو انہوں نے وزیراعظم کے لئے نامزد ہوتے ہی جب کہہ دیا تھا کہ وہ بغیر دعوت کے بھی بھارت جا سکتے ہیں تو ان کے آج کے دورہ¿ بھارت پر ملکی اور قومی مفادات کے حوالے سے نفع نقصان کا جائزہ لینا بس ہمارا ہی دردِ سر ہے، انہیں اس سے کیا؟
ایک سروے رپورٹ کے مطابق ملک کے 64 فیصد عوام نے میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کی مخالفت اور صرف چار فیصد نے حمایت کی ہے تو یہ چار فیصد ہی ان کے لئے قومی منڈیٹ ہے بالکل ویسے ہی جیسے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی صرف سیفما تقریب کے چند درجن شرکاءکی خواہش کو انہوں نے پوری قوم کی رائے سمجھ لیا اور پوری ”ہوشمندی“ کے ساتھ یہ بیان داغ دیا تھا کہ انتخابات میں انہیں قومی مینڈیٹ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا ہی حاصل ہوا ہے۔ اب تو خیر سے پیپلز پارٹی اور اے این پی ہی نہیں، حضرت مولانا فضل الرحمان اور حضرت عمران خان (بذریعہ جاوید ہاشمی) نے بھی ان کے دورہ¿ بھارت کی حمایت کی ہے اور کشمیری لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے بھی ان کے دورہ¿ بھارت سے نیک توقعات وابستہ کر لی ہیں اس لئے وہ اب قومی مینڈیٹ سے بھی کچھ آگے کا سوچ کر آج بھارت یاترا پر روانہ ہوں گے تو کیوں نہ ہم بھی ہمہ جہت پہلوﺅں کا جائزہ لے کر میاں نواز شریف کے خوشی و سرشاری سے لبریز دورہ¿ بھارت پر ہلکا پھلکا تبصرہ کریں۔
اگر میں جذباتی دلیل کا سہارا لوں تو مجھے ان کا دورہ¿ بھارت ایک آنکھ نہیں بھا رہا، انہیں تو اس موقع پر ایسے کو تیسے والا جواب دینا چاہئے تھا۔ انہوں نے وزیراعظم نامزد ہوتے ہی اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن کو ایسے ہی اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا جیسے اب انہیں مودی کی جانب سے ویسے ہی مدعو کیا گیا ہے۔ من موہن نے نہ صرف ان کی دعوت قبول نہ کی بلکہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں بھی اضافہ کر دیا اور پھر کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی کے اظہار میں کوئی بھی بھارتی لیڈر پیچھے نہ رہا۔ من موہن نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر میاں نواز شریف اور پاکستان کے خلاف وہ طوفانِ بدتمیزی اُٹھایا کہ ”ست سری اکال، جو بولے سو نہال“۔ پھر میاں نواز شریف دوبارہ امریکہ کے دورے پر گئے تو من موہن سنگھ نے بھارتی لابی کو کیل کانٹوں سے لیس کر کے ان کے پیچھے لگا دیا، انہوں نے دو سال قبل پاکستان کا شیڈولڈ دورہ¿ منسوخ کرتے ہوئے پاکستان پر رعونت بھرے لہجے میں دراندازی کے الزامات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اپنے اقتدار کے آخری دن تک اس پر کاربند رہے۔ پھر بھارت کے انتخابات کی مہم کے دوران تو نریندر مودی میاں نواز شریف کے معاملہ میں ہمہ وقت ”موڈ“ میں رہے، ان کی جانب سے من موہن سنگھ کو دیہاتی بڑھیا قرار دینے کے ادا کئے گئے فقرے کو مودی نے اُچک لیا اور من موہن سنگھ کو رگیدنے کے لئے پاکستان پر ملبہ ڈالنا انہوں نے اپنی سرشت میں شامل کر لیا اس لئے ان کی دعوت کو ٹھکرا کر انہیں ”ایسے کو تیسا“ کا جواب دینے کا یہی بہترین موقع اور وقت تھا جو میاں نواز شریف کی بھارت کے لئے وارفتگی کے آگے ڈھیر ہو گیا۔
چلیں یہ خفت ہم میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت کی افادیت کا جائزہ لیکر مٹا لیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو اس امر سے آگاہی ہو چکی ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے پر نریندر مودی کو پاکستان مخالف بھارتیوں کی کتنی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کے مخالف بھارتی لیڈران تو انہیں کوسنے دینے کے انداز میں ان کی وہ انتخابی تقریر یاد کرا رہے ہیں جس میں انہوں نے میاں نواز شریف کی ایک تقریر کے مندرجات کے حوالے دے کر ان پر پھبتیاں کسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اگر اب میاں نواز شریف کو مدعو کرنے پر مودی کو اپنے ووٹروں اور مخالفین کی جانب سے خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو میاں نواز شریف کا فی الواقع بھارت جا کر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونا ان کی اس خفت میں مزید اضافہ کر سکتا ہے جو انہیں بھارتی عوام کے ہاتھوں اٹھانا پڑ رہی ہے۔ تو جناب کیسا ہے؟ ہم نے میاں نواز شریف کے دورہ¿ بھارت سے اپنے لئے پیدا ہونے والی خفت کا رُخ بدل کر ان کے اسی دورہ¿ بھارت کی بنیاد پر مودی کی خفت میں اضافے کا اہتمام کر دیا ہے۔ پتہ نہیں میاں نواز شریف نے اپنی بھارت یاترا کا اس پہلو سے جائزہ لیا ہے یا نہیں مگر ان کے دورہ کی یہ افادیت نکل ضرور آئی ہے اور اگر اس دورے سے فائدہ اٹھا کر وہ مودی اور بھارتی صدر پرنام سے ون ٹو ون ملاقاتوں کے دوان بات بے بات کشمیر کا تذکرہ شروع کر دیں اور اسے ”کور ایشو“ قرار دے کر انہیں باور کرائیں کہ وہ یو این قراردادوں پر عمل کر کے ہی مسئلہ کشمیر سے اپنی گلوخلاصی کرا سکتے ہیں تو ان کے اس مو¿قف کی بنیاد پر دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں ہائی لائیٹ ہو گا جو ان کے دورہ¿ بھارت کی افادیت کو مزید اجاگر کرے گا، پھر کیوں نہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ بھئی آپ اپنے دفترِ خارجہ کی بھارت یاترا نہ جانے کی تجویز کو تو گولی مار ہی چکے ہیں تو اب اس کے تمام ممکنہ مثبت پہلوﺅں کو پلّے باندھ کر جائیں۔ شاید میر واعظ عمر فاروق نے بھی اسی ناطے سے آپ سے اچھی توقعات وابستہ کی ہیں۔ لیکن یاد رکھئے، اگر آپ اپنی اس سوچ کو ہی ساتھ لے کر بھارت جا رہے ہیں کہ ہم نے بہت جنگیں لڑ لیں، کچھ حاصل نہیں ہوا، اب ہمیں اپنے اپنے اصولی م¶قف سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانا چاہئے تو آپ کی اس سوچ کا شائبہ بھی آپ کے اس دورہ¿ بھارت کو آپ کے اقتدار کے تابوت کی آخری کیل بنا دے گا۔ اگر بھارت کا ساتھ دینے والی دنیا کی یہ کوشش ہے کہ کشمیر کو نظروں سے اوجھل کر کے پاکستان اور بھارت کو دوستانہ تجارتی ثقافتی بندھنوں کے ساتھ باندھ دیا جائے جس کے لئے میاں نواز شریف کے آج کے دورہ¿ بھارت پر بھرپور لابنگ کی جا رہی ہے تو میاں صاحب مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر کے اور اس کے یو این قراردادوں کے مطابق حل پر اصرار کر کے اپنے اس دورہ¿ بھارت کو قوم سے اپنے حق میں کیش کرا سکتے ہیں۔ آج دونوں پردھان منتریوں کا امتحان ہے، مودی بھی اپنی قوم کے سامنے جوابدہ ہوں گے اور میاں نواز شریف بھی۔ آپ بھارت یاترا کی ”موذی چالوں“ کو ناکام بنائیں گے تو قومی ہیرو بن کر واپس لوٹیں گے ورنہ سیاست میں مفاہمت کرنے والے رفیق باجوہ جیسے قومی ہیرو کے زیرو بننے میںکوئی دیر نہیں لگتی۔