مذہبی سیاسی جماعتیں مجلس عمل، یکجہتی کونسل کو فعال کرنے کے لئے پھر متحرک
اسلام آباد (آن لائن) مذہبی سیاسی جماعتیں متحدہ مجلس عمل اور یکجہتی کونسل کو فعال کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھرمتحرک ہوگئیں۔ مولانا فضل الرحمن سے ابوالخیر زبیر، ساجد نقوی اور لیاقت بلوچ کے رابطے، ایک ایجنڈے کے تحت شعائر اسلام کی توہین، فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جارہاہے اور نادیدہ قوتیں مذہبی جماعتوں کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں اور ملک میں مذہبی منافرت پھیلانا چاہتی ہیں، ہمیں جلد ایک ہونا ہوگا، ر ہنمائوں کا مطالبہ، سنجیدگی سے غور کررہے ہیں جلد جواب دینگے، مولانافضل الرحمن کا جواب۔ ترجمان نے بھی تصدیق کردی۔ ذرائع نے بتایا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس اور ملی یکجہتی کونسل کو مزید فعال کرنے کیلئے متحرک ہوگئیں اور اس سلسلے میں جمعیت علمائے پاکستان(نورانی) کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر ، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اپنے رابطوں میں تیزی کردی ہے اور مولانافضل الرحمن سے بھی مشاورت شروع کردی ہے جبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق پر بھی زور دیاگیاہے کہ وہ اس مشن کو وہیں سے آگے بڑھائیں جہاں سے قاضی حسین احمد نے چھوڑا تھا جس پر انہیں مثبت جواب ملاہے ۔ذرائع نے مزید بتایاکہ مولانافضل الرحمن سے مذہبی رہنمائوں کے رابطوں میں ان پر زور دیاگیاہے کہ ملک میں ایک ایجنڈا کے تحت شعائر اسلام کی توہین کی گئی ، فحاشی و عریانی کو میڈیا پر فروغ دیا جارہاہے اور سرعام اسلامی اقدار کو پامال کیا جارہاہے جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لے رہی ہیں جبکہ کچھ نادیدہ قوتیں مذہبی جماعتوں کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں اور ملک میں مذہبی منافرت پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ایسے حالا ت میں ضروری ہے اتحاد کی طاقت استعمال کی جائے اور ان سازشوں کو ناکام بنایاجائے۔ ان رابطوں میں یہ بھی کہاگیا کہ ماضی میں ایم ایم اے کی فعالیت نے جہاں سیاسی طور پر مذہبی جماعتوں کو مضبوط کیا وہیں معاشرے پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے مذہبی جماعتوں کو مثبت اشارہ دیدیاہے جس کے بعد جلد مذہبی سربراہوں کی اہم ملاقات متوقع ہے ۔ اس سلسلے میں جب جے یو آئی (ف) کے ترجمان جان اچکزئی سے رابطہ کیا تو انہوںنے ان رابطوں کی تصدیق کردی اور کہاکہ اس سلسلے میں جے یو آئی ف کا اصولی موقف رہاہے مگر ماضی میں کچھ چھوٹے موٹے اختلافات کے باعث معاملات خراب ہوئے مگرہم پہلے کی طرح اب بھی چاہتے ہیں معاملات مذاکرات کی میز پر حل ہوں اور مذہبی جماعتیں ایک قوت کے طور پر اکٹھی ہوں۔