فاٹا میں3 لاکھ70 ہزار بچوں کا پولیو قطروں سے محروم رہنے کا خدشہ
پشاور (نیشن رپورٹ) فاٹا کے 4 اضلاع میں انسداد پولیو مہم شروع کر دی گئی ہے تاہم عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ ان علاقوں میں سکیورٹی مسائل کی وجہ سے 3 لاکھ 70 ہزار بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ جائینگے۔ مئی کے آغاز میں پولیو کے کیسز کے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کے کیسز سامنے آنے کے بعد عالمی ’’پبلک ہیلتھ ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے سات سرحدی قبائلی علاقے پولیو کے حوالے سے خطرناک علاقے بن گئے ہیں جس کے بعد حکومت نے فاٹا سے آنیوالے تمام لوگوں کے پولیو سے محفوظ ہونے کی یقین دہانی کیلئے ان سرحدوں پر چیک پوائنٹس قائم کردی ہیں۔ پشاور میں حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ پیر کے روز 4 قبائلی ایجنسیوں میں انسداد پولیو مہم شروع ہو رہی ہے۔ اس مہم کے دوران 6 لاکھ 20 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائینگے۔ دوسری جانب ایک دوسرے عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خدشہ ظاہر کیا کہ ان 4 ایجنسیوں میں سے 3 ایجنسیوں کے بچے پولیو کے قطروں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں گے۔ پولیو ویکسی نیشن کی مخالفت اور عسکریت پسندی ایسے عوامل ہیں جس کے باعث یہ بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہیں گے۔ تشدد نے پاکستان میں پولیو اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کی مہم کو شدید متاثر کیا ہے کیونکہ عسکریت پسند گروپ اس مہم کو جاسوسی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ان تین ایجنسیز میں 3 لاکھ 69 ہزار 39 بچے اسلئے پولیو کے قطرے نہ پی سکیں گے کیونکہ وہاں پر امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ یہ تین اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور مہمند ہیں جبکہ خیبر ایجنسی بھی انسداد پولیو مہم متاثر ہوگی۔ پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جو پولیو کے حوالے سے خطرناک قرار دئیے گئے ہیں اور اس سال منظر عام پر آنیوالے 80 فیصد کیسز انہی ممالک میں سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں دسمبر 2012ء سے لیکر اب تک پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملوں میں 56 ہیلتھ ورکرز اور انکی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیو کے قطرے پینے سے بانجھ پن کا شکار ہونے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ دو عہدیداروں نے حالیہ انسداد پولیو مہم کی تصدیق کی اور بتایا کہ ڈبلیو ایچ او اور یونیسف اس مہم میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔