’’شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی بند کی جائے‘‘ قبائلی جرگہ‘ حکومت طالبان مصالحت کی پیشکش
پشاور (نیٹ نیوز) شمالی وزیرستان میں مقامی قبائل کے نمائندہ جرگے نے علاقے میں جاری غیر اعلانیہ فوجی کاروائیاں فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق یہ گذشتہ دس سال کے دوران پہلا موقع ہے کہ مقامی قبائل نے اس قسم کا نمائندہ جرگہ منعقد کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ جرگہ منگل کی صبح میرعلی کے علاقے کسکی میں اتمان زئی وزیرقبائل کے ایک سرکردہ قبائلی رہنما اور جنگ آزادی کے ہیرو فقیر آف ایپی کے نواسے اور جانشین حاجی شیر محمد کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں اتمان زئی وزیر اور داواڑ قبائل کے مشران اور علماء کرام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقامی باشندوں کے مطابق قبائلی جرگہ شمالی وزیر ستان میں کچھ عرصے سے جاری فوجی کارروائیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اور علاقے میں امن برقرار رکھنے کیلئے طلب کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیوں میں 100کے قریب عسکریت پسند مارے گئے تاہم مقامی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 150 کے قریب بتائی تھی۔ جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ علاقے میں جاری غیر اعلانیہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے اور وزیرستان سے کرفیو کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ جرگے نے طالبان اور حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کی بھی پیشکش کی۔ جرگے میں شریک افراد نے بتایا کہ اتمان زئی وزیر قبائل نے حکومت کے ساتھ 2008 میں ہونے والے امن معاہدے کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ وزیرستان کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قبائلی جرگہ کے سربراہ اور فقیر آف ایپی کے جانشین حاجی شیر محمد نے بتایا کہ جرگے کے انعقاد کا مقصد علاقے میں پائیدار امن کا قیام اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جس کی وجہ سے وزیرستان کے حالات خراب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان ہندوستان کے ساتھ امن کی بات کر سکتا ہے تو پھر اپنے لوگوں سے امن مذاکرات میں کیا حرج ہے۔ بی بی سی کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس جرگے کو مقامی طالبان حافظ گل بہادر گروپ کی حمایت حاصل تھی۔ ادھر اس جرگے کی کوریج کیلئے وزیرستان جانے والے مقامی صحافیوں کو سکیورٹی فورسز نے بنوں میں روک کر انہیں وہاں سے واپس بھیج دیا۔ وزیرستان کے سینئر صحافی سیلاب محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین دیگر غیر ملکی میڈیا سے منسلک مقامی صحافیوں کے ہمراہ وزیرستان جا رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز نے بنوں شہر میں تمام صحافیوں کو کوئی وجہ بتائے بغیر جانے سے روک دیا۔ دوسری طرف شمالی وزیرستان میں ایک ہفتے قبل ہونے والی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ تین دنوں کے دوران میر علی سب ڈویژن سے مقامی باشندے بڑے پیمانے پر بنوں اور آس پاس کے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔