• news

بدھ ‘ 28 رجب المرجب ‘ 1435ھ ‘ 28 مئی 2014ئ

 فضل الرحمن کی سراج الحق سے ملاقات دینی جماعتوں کے اتحاد کیلئے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق۔
اب معلوم نہیں یہ کون سا اتفاق ہے جو دونوں کے درمیان ہوا یہ وہی اتفاق تو نہیں جو دینی جماعتوں کے ہر اجلاس کے دوران وقفہ نماز پر دیکھنے میں آتا ہے جب تمام مولوی حضرات ایک خدا کے ماننے والے لوگوں کو ایک رسول اور ایک قرآن کی دعوت دینے والے اپنی نماز علیحدہ علیحدہ ادا کرتے ہیں۔ اگر یہی اتفاق ہے تو پھر کسی نے سچ کہا تھا ” یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کیلئے “ پاکستان میں درجنوں دینی جماعتیں اتفاق و اتحاد کے نعرے لگاتی ہیں۔
 ہر خضر صورت قائد اتحاد و اتفاق کا درس گزشتہ 65 برسوں سے دے رہا ہے مگر حالت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے اور دھڑلے سے ایک طرف تمام مسلمان بھائی بھائی کے نعرے لگاتے ہیں دوسری طرف ایک دوسرے کیخلاف کفر سازی کی توپوں سے گولے اگلتے ہیں۔ اب یہ لیلائے اقتدار کے جلوﺅں کی برکات ہیں جو اسلام آباد کے دلکش محلات میں اپنا حسن جہاں سوز چھپائے بیٹھی ہے کہ یہ سب کبوتر ان حرم اسکے ہاتھوں ذبح ہونے کیلئے بے چین نظر آتے ہیں اور اس بار گاہ ناز تک رسائی کیلئے ایک دوسرے کا کاندھا استعمال کرکے وہاں پہنچناچاہتے ہیں۔اب دیکھتے ہیں اس بار کون سیڑھی بنتا ہے اور کون اوپر پہنچتا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں اوپر پہنچنے میں اکثر کامیاب رہی ہیں اور باقی جماعتیں....
 تعمیر تو کر شیش محل لاش پر میری
 شامل تیری خوشیوں میں میرا خون وفا ہے
کی عملی تصویر بن کر پھر کسی نئے اتحاد کی راہیں تلاش کرتے نظر آتی ہیں اور یوں یہ اتحاد عملاً انتشار کی صورت میں نظر آتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
 وزیراعظم کے دورہ بھارت کیلئے ٹائیاں میں نے منتخب کیں: مریم نوازشریف
 ہمیں تو داد دینا پڑے گی مریم کے حسن انتخاب کی۔ ایک ہمارے وزیراعظم پہلے ہی لال سرخ اور گورے چٹے ہیں۔ ان پر اتنی خوبصورت گہری رنگ کی نیلی اور سرخ ٹائیاں تو غضب ڈھا رہی تھیں ہاں البتہ بھارتی وزیراعظم مودی کو یہ نیلے پیلے اور سرخ رنگ دیکھ کر بد گمانی نہ پیدا ہوئی ہو کہ نواز شریف اپنے لباس سے گل ولالہ کی عشق پیچاں کی گلابوں کی سرزمین کشمیر کا استعارہ تو نہیں بن رہے کیونکہ ....
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہوپکارے گا آستیں کا
 شاید اسی حالت کو کہتے ہیں جب ہم توچپ ہوں مگر ہمارا لباس ہماری شخصیت اور ہر ادا ہمارے جذبات کی عکاسی کررہی ہو۔
 ویسے بھی مودی کی اس بارات میں تو دولہا نواز شریف ہی لگ رہے تھے جنہوں نے واقعی میلہ لوٹ لیا مگر کہیں وہ اس میلے میں اپنا کمبل نہ کھو کر واپس آئیں۔ ہر انسانی اور کیمرے کی آنکھ انہی کی طرف تھی۔ دعا ہے کہ مودی سے ملاقات میں بھی انہوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے بات کی ہو کشمیر کی پانی کی اور بلوچستان میں گڑ بڑ کی ۔ صرف ممبئی دھماکے اور بھارت میں تخریب کاری کے الزامات سن کر مسکرا کر نہ رہ گئے ہوں کیونکہ یہ بنیادی مسئلے حل نہیں ہوں گے تو تجارت ہوگی نہ سیاست سب کچھ ” صرف ٹائیں ٹائیں فش“ ہوگا۔
٭....٭....٭....٭
 پٹرولیم مصنوعات 4 روپے لٹر تک مہنگی کرنے کی سمری 30 مئی کو وزارت خزانہ کو بھجوائی جائے گی۔
 اب تک عوام مئی کی گرمی سے ستائے ہوئے تھے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کا بم ان پر گرا کر ان کو مزید نڈھال کرنے کے پروگرام کا اعلان بھی ہونے لگا ۔ حکومت ایک ماہر شکاری کی طرح عوام کو شکار سمجھ کر دوڑ ادوڑا کر تھکا کر مارنے پر تلی ہوئی ہے۔
ابھی چند روز قبل تک 34پیسے پٹرول کی قیمت میں کمی کا اعلان عوام کیلئے اس موسم گرما میں بھی باد نسیم کے ٹھنڈے جھونکے کی طرح تھا مگر 4 روپے یکدم اضافہ کا خطرہ اب ان پر ناگہانی بم کی طرح پھٹے گا اور لوگ ....ع
”درد جگر ٹھہرو ذرا دم تو مجھے لینے دو“
 کہتے ہوئے چند پیسوں کی کمی کو یاد کرتے ہوئے روپوں کی شکل میں اضافہ پر حکومتی دھوکہ دہی کا ماتم کریں گے اور اپوزیشن تو ویسے ہی تیار بیٹھی ہے۔ لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت کے ساتھ رمضان سے پہلے ہی قیامت خیز مہنگائی نے گرمی کو بھی مات دیدی ہے۔ گویا بارود تیار ہے صرف تیلی لگانے کی دیر ہے پھر سب کچھ بھک سے اڑ جائے گا اور گھر گھر لڑی جانے والی مہنگائی کی جنگ اب سڑکوں پر ہوگی اور لوگ” پانی پت“ کی لڑائی بھول جائیں گے۔
٭....٭....٭....٭
 دہلی میں روزانہ 6لڑکیوں سے زیادتی ہوتی ہے۔ پولیس کا اعتراف
 معاشرتی بے راہ روی اور رشتوں کی کمزوری کے باعث جس طرح مشرقی معاشرہ بھی تنزلی کی طرف گامزن ہوگیا ہے اسکا ہلکا سا عکس ہمیں یہ خبر پڑھ کر بخوبی ہوسکتا ہے کہیں بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں۔ ہر جگہ قدم قدم پر بھیڑئیے چھپے بیٹھے ہیں ان حالات میں والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو بہت زیادہ آزادی نہ دیں ان پر ہر صورت کچھ روک ٹوک رکھیں۔ وہ کہتے ہیں ناں ” کھلاﺅ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی آنکھ سے “ بالکل درست کہاجاتا ہے۔
 لڑکیوں کو بھی جذباتی عمر کے دور میں جب وہ سکول سے نکل کر کالج میں قدم رکھ رہی ہوں اچھے برے کی تمیز کرنا ہوگی اور غلط لوگو ں کے ساتھ میل جول میں محتاط رہنا چاہئے۔ بڑوں کی نصیحت پر کان دھرنا فائدہ مند رہتا ہے۔ باقی رہی بے لگام آزادی کی برکات تو اس سے محدود پابندیاں لاکھ درجے بہتر ہیں کیونکہ کم از کم اس طرح بنت حوا کی حرمت تو برقرار رہتی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن