وہ 17 دن ....
11 مئی 1998 کو بھارت کی جانب سے اےٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے 18 کروڑ عوام نے 17 روز شدید خوف کے سبب نفسیاتی ہیجان میں مبتلا رہے۔ وجہ اسکی ےہ تھی کہ بھارتی ایٹم بم کا ممکنہ نشانہ پاکستان کے سوا کوئی اورنہ تھا، نیوکلئیر بم ہاتھ آتے ہی ہندو ذہنیت نے بھی اپنے اندر کا گند اُگل دیا، بھارتی میڈیا پر پاکستانیوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ ہندوستان کے تنگ نظر سیاستدانوں اور نام نہاد دانشوروںنے گھمنڈ میں آکر ایٹمی دھماکوں کو اکھنڈ بھارت کی طرف فیصلہ کن قدم قرار دے ڈالا۔ بھارتی دھمکیوں سے پاکستانی قوم بے چینی کا شکار ہو رہی تھی اور عالم تصور میں لوگ خود کو ایٹمی حملے میں جھلستے اور پگھلتے محسوس کر رہے تھے، عدم تحفظ کے شدید احساس میں مبتلا عوام جوابی ایٹمی دھماکوں کے خواہاں تھے لیکن تذبذب کا شکار حکومت اپنی مجبوریوں کا رونا رو رہی تھی۔اس کٹھن مرحلے پر ایک ایک دن قوم پر بھاری گزر رہا تھا، جوابی ایٹمی دھماکوں کے حامیوں کی غالب اکثریت اور بعض مخالف عناصر کی آوازوں کا شور برپا تھا، ایک طرف عالمی طاقتوں کا دباﺅ تھا تو دوسری طرف قوم ایٹمی دھماکوں کے مطالبے پر ایک ہو چکی تھی ، انکار اور اصرار کی اس کیفیت میں نواز شریف حکومت عملی طور پر معلق ہو چکی تھی۔ اس نازک موڑ پر نظریہ پاکستان کے محافظ اخبار نوائے وقت نے تحفظ پاکستان میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، صحافت میں وقار اور اعتبار کی علامت جناب ڈاکٹر مجید نظامی کے ایک تاریخی جملے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اور نواز شریف میں وہ ہمت مجتمع کر دی جو شاید وہ کسی بھی یقین دہانی سے اپنے اندر پیدا نہ کر پاتے۔ جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے وزیراعظم کو ان الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ ،،نواز شریف صاحب اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی،،اب نواز شریف کو بات پوری طرح سمجھ آگئی اور بات بھی اس شخصیت کی جو ان کیلئے حکم کا درجہ رکھتی تھی،ویسے بھی نواز شریف قومی امور پر ہمیشہ جناب ڈاکٹر مجید نظامی سے رہنمائی کے خواہش مند رہے اور ان کی جانب سے واضح اظہار کے بعد نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
بھارت کو ایٹمی دھماکے کئے ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے، ایک طرف جوابی دھماکوں کیلئے عوامی مطالبہ زور پکڑ رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے عالمی دباﺅ بڑھ رہا تھا، پاکستان کے عوام نے سترہ روز انتظار کی سولی پر لٹک کر گزارے اور پھر وہ دن بھی آگیاجب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیدیا۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ یہ وہ یوم تکبیر تھا جب پاکستان ناقابل تسخیر بن گیااور قوم خوف اور سناٹے کے عالم سے نکل کر خوشی اور سرمستی سے جھوم اٹھی،بھارت کی گیدڑ بھبکیاں اور عالمی دباﺅ بھی ان دھماکوں میں اُڑ گیا۔
چاغی کے پہاڑوں پر چھانے والے سفےد بادلوں سے اےک محفوظ اور ناقابل تسخیر پاکستان نمودار ہوا، آئندہ نسلیں پاک سرزمین کو محفوظ بنانے مےں کردار ادا کرنیوالے محسنوں کو رہتی دنےا تک سلام پےش کرتی رہیں گی ۔ ےہ اےک محض اتفاق ہے کہ پاکستان کے اےٹمی دھماکوں کی 17وےںسالگرہ سے اےک روز پہلے وزیراعظم نواز شرےف نئے بھارتی ہم منصب نرےندر مودی سے ملے۔ ےہ ملاقات بلاشبہ اسی طاقت کا ثمر ہے جو پاکستان کو اےٹمی دھماکوں کے نتےجے مےں بھارت کے مقابل آنے پرحاصل ہوئی۔ طاقت کے توازن کی بات ہوگی تو اےٹمی پاکستان کسی طور پر بھارت سے کم نہےں، اےنٹ کا جواب پتھر سے دےنے کی صلاحےت سب سے بڑی دفاعی حکمت عملی ہے۔ کشےدگی کے باوجود بھارت کا جنگ سے گرےز اےٹمی پاکستان کی بدولت ہی ممکن ہوا اور نواز شرےف کو بھارت مےںسب سے زےادہ توجہ حاصل رہی اور وہ بھارتی وزیراعظم کے مقابلے میں سینہ تان کرپورے قد سے کھڑے نظر آئے۔ بھارت مےں مقےم مسلمانوں کی زبان پر تو تالے ہےں لےکن تنگ نظر اکثرےت کے ےہ ےرغمالی نگاہ دوڑاتے ہےں تو انہےں پاکستان کے سوا دنیا میں کوئی ہمدرد دکھائی نہےں دےتا۔ نواز شرےف کی بھارت مےں خطے کے اےک بڑے لےڈر کی حےثےت سے وہاں موجودگی ان کیلئے بلاشبہ اطمےنان کا سبب ہوگی۔گذشتہ حکومتوںمیں پاکستان اور بھارت کے درمےان بےک ڈور ڈپلومےسی نتےجہ خےز ثابت نہ ہو سکی۔ کرکٹ ڈپلومےسی سے بھی عوامی رابطوں مےں بہتری کے سوا کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ آئندہ اےسی مزےد کوششوں کے ساتھ اےسے اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں جن سے غلط فہمےوں اور کشےدگی مےں کمی آئے اور تعلقات مےں سرد مہری کی جگہ گرمجوش پےدا کی جائے۔
نواز شرےف بھارت کیساتھ بات وہےں سے شروع کرناچاہتے ہےں جہاںسے سلسلہ ٹوٹا تھا۔اعلانِ لاہور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی حکومت کے وزےر اعظم اٹل بہاری واجپائی کیساتھ طے ہوا تھا اب پھر بی جے پی کی حکومت ہے، اس ضمن مےں بات چےت آگے بڑھانے کے لئےپاکستان کی جانب سے اٹل بہاری واجپائی کو ہی رابطہ کار مقرر کرنے کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے جو اس وقت بھارت کی حکمران جماعت مےں احترام کی نظر سے دےکھے جاتے ہےں ۔ ملاقات مےں باور کرا دےا گےا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمےان اُلجھی ڈور کا سرا مسئلہ کشمےر ہے جب تک ےہ سرا نہےں ملتا گتھی سلجھائی نہےں جا سکے گی اور وسطِ اےشےا کی منڈےوں تک رسائی کی بھارتی خواہش پوری نہےں ہو سکے گی۔ ملاقات مےں پاک بھارت رہنماو¿ں نے شکوے شکاےت تو کئے لےکن ان کی گفتگو کا بڑا فوکس مستقبل کے تعلقات پر رہا اور بھارت کو باور کرا دیا گیا کہ مستقبل کی طرف تمام راستے کشمیر کے مسئلے ،پانی پر پاکستان کے حق اور بلوچستان میں عدم مداخلت سے ہو کر جاتے ہیں۔
دونوں رہنماﺅں نے آنیوالے وقت میں اعتماد سازی کے اقدامات پر اتفاق تو کر لیا لیکن طے شدہ امور پر پیشرفت اصل امتحان ہو گا۔151 بھارتی قیدیوں کی نئی حکومت کو سلامی اور نریندر مودی کی حلف برداری میں نواز شریف کا خود شریک ہونا خیر سگالی کے وہ اقدام ہیں جن کا فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ماضی کو دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا تنگ نظری کشادہ دلی میں تبدیل ہو سکتی ہے تو جواب میں ”جواب ،،ہی ملتا ہے۔ نواز شریف درست کہتے ہیں کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہو سکتے لیکن بار بار آزمائے ہوئے بد خواہ سے دوستی کی خواہش کا اظہا ر بھی صدا بصحراسے زیادہ نہیں ۔ امن کی بات اور مذاکرات بہت بھلی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن عوام کے ذہنوں پر یکطرفہ دوستی کے ہتھوڑے برسانے والے نام نہاد امن پسند شاید یہ نہیں جانتے کہ جنگ کا آپشن کھلا رکھنا ہی امن کی ضمانت ہے۔