ہائیکورٹ کے باہر قتل ہونیوالی فرزانہ کڑے پہرے میں سپردخاک، اقوام متحدہ کی مذمت
لاہور، واشنگٹن، واربرٹن (اے ایف پی + نمائندہ خصوصی + نامہ نگار) پسند کی شادی کرنے پر لاہور ہائیکورٹ کے باہر گھر والوں کے اینٹوں سے حملے میں قتل ہونے والی 3 ماہ کی حاملہ لڑکی فرزانہ پروین کو گزشتہ روز سید والا میں پولیس کے کڑے پہرے میں سپردخاک کردیا گیا۔ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر مکھن گائوں میں پولیس تعینات رہی۔ بتایا گیا ہے کہ فرزانہ کے سر پر اس کے دو بھائیوں، 3 کزنوں اور والد محمد عظیم نے اینٹوں کے پے درپے وار کئے جس کے باعث فرزانہ جاں بحق ہوگئی جس کے ساتھ پیٹ میں اس کا بچہ بھی دم توڑ گیا۔ لاہور پولیس نے لڑکی کے والد محمد عظیم کو حراست میں لے کر 15 افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا تاہم فرزانہ کے دو بھائیوں، 3 کزنوں جن میں ایک اس کا سابقہ منگیتر تھا کو گرفتار نہ کرسکی۔ پولیس افسر مشتاق محمد نے اس حوالے سے بتایا کہ ملزموں کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ادھر فرزانہ کے شوہر محمد اقبال نے جس کی یہ دوسری مگر پسند کی شادی تھی نے بتایا کہ وہ انصاف کے حصول اور بیوی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے آخری دم تک لڑے گا۔ اے ایف پی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے محمد اقبال نے کہا کہ وہ منگل کو اغوا کیس کے سلسلے میں وکیل سے ملنے لاہور میں ان کے دفتر گئے جس کے بعد وہ اور فرزانہ ہائیکورٹ میں پیشی کیلئے آرہے تھے کہ فرزانہ کے والد بھائیوں کزنوں نے اچانک دھاوا بول دیا۔ فرزانہ کے بھائی نے گولی چلا دی مگر فائر مس ہوگیا جس کے بعد حملہ آوروں میں موجود خواتین نے فرزانہ کو دبوچ لیا اور اس کے والد کزنوں اور بھائیوں نے اینٹوں کے وار شروع کردیئے۔ محمد اقبال نے بتایا کہ اس پر اور فرزانہ پر پہلے بھی گائوں سے پیشی پر آتے ہوئے 28 اپریل کو حملہ ہوا تھا مگر دونوں محفوظ رہے تھے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ نے لاہور میں 25 سالہ خاتون فرزانہ کو ہائیکورٹ کے باہر اس کے گھر والوں کی طرف سے اینٹیں مار مار کر قتل کردینے کی شدید مذمت کی ہے اور حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے ظالمانہ واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی کمشنر نیوی پیلے نے واشنگٹن میں جاری بیان میں کہا کہ فرزانہ کے بہیمانہ قتل کی خبر سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔ یہ لڑکی پاکستان میں دیگر اور خواتین کی طرح غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ محض اس وجہ سے کہ اس نے پسند کی شادی کرلی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں نمایاں ہے جہاں خواتین کیخلاف تشدد کے واقعات عام ہیں اور وہاں ہر سال سینکڑوں عورتیں عزت کے نام پر مار دی جاتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت فرزانہ جیسی خواتین کو تحفظ دینے کیلئے فوری اقدامات کرے کیونکہ فرزانہ کا عدالت کے باہر قتل ریاستی مشینری کی حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ناکامی ہے۔ واربرٹن سے نامہ نگار کے مطابق سید والا پولیس کا کہنا ہے کہ محمد عظیم کی بیٹی فرزانہ کا نکاح اس کے کزن مظہر کے ساتھ ہوچکا تھا۔ ساڑھے 4 ماہ قبل اس کے اغوا کا مقدمہ اقبال وغیرہ کے خلاف درج کرایا گیا۔ فرزانہ کے قتل کے بعد پولیس کی بھاری نفری سید والا پہنچ گئی ہے۔ ملزموں کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔ دریں اثناء انسانی حقوق کمیشن نے لاہور میں فرزانہ بی بی کے بہیمانہ قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ میں موجود پولیس اہلکاروں اور لوگوں نے کسی نے بھی فرزانہ کو بچانے کے لئے مداخلت نہ کی۔ کمیشن نے بیان میں کہا کہ ریاست کی طرف سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی سے ایسے ظالمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔