ایگزیکٹو مجسٹریسی بحال کرنے کی منظوری‘ صوبے بجلی واجبات کا 25 فیصد وفاق سے ملنے والی رقم سے کٹوانے پر رضامند
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + دی نیشن رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے توانائی بچت بل (پاکستان انرجی ایفی شنسی اینڈ کنزرویشن بل 2014ئ) کی منظوری دے دی ہے‘ صوبوں نے بجلی کے واجبات کا 25 فیصد وفاقی وزارت خزانہ کو کٹوانے پر اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے‘ اجلاس کے دوران انتظامی امور بہتر بنانے اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے صوبوں کی درخواست پر ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام بحال کرنے کی منظوری دی گئی۔ اس مقصد کے لئے 1898ء کے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے جس سے یہ نظام بحال ہو جائیگا، اجلاس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلی‘ وفاقی وزراء اور چیف سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو وفاقی محکمے صوبوں کو منتقل کئے گئے ہیں ان کے ملازمین کو صوبائی محکموں میں کھپانے کیلئے صوبائی حکومتوں نے اپنی مشروط رضامندی ظاہر کردی ہے۔ صوبائی حکومتیں 90 دنوں میں اس حوالے سے ضروری قانون ساز کا عمل مکمل کرلیں گی جس کے بعد کئی ہزار ملازمین کیلئے غیر یقینی صورتحال ختم ہوجائے گی۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبوں کی درخواست پر مجسٹریسی نظام کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے قبل مجسٹریسی نظام سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ختم کردیا گیا تھا۔ اس نظام کی بحالی کیلئے صوبے پندرہ دن میں قانون سازی کیلئے قانونی مسودہ وزارت قانون و انصاف کو بھیجیں گے۔ اجلاس میں گوادر پورٹ اتھارٹی کا چیئرمین اور ایگزیکٹو بورڈ کے 50 فیصد ارکان کے تقرر کا اختیار بلوچستان حکومت کو دینے کی منظوری دے دی۔ بجلی کے بقایا جات کی مد میں صوبوں نے 25 فیصد وزارت خزانہ کو ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ کٹوتی کا یہ بل 60 دن میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اجلاس میں توانائی بچت بل کی قانون سازی قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے بعد ہونے والے اجلاس میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت مارکیٹوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات اور گرمی اور سردی میں سرکاری دفاتر کے اوقات بھی طے کئے جائیں گے۔ قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد یہ بل چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ صوبے اس بات پر رضامند ہو گئے ہیں کہ وزارت خزانہ واجب الادا بجلی بلوں میں سے 25 فیصد منہا کر لے۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ بقایا رقم 60 روز میں وصول کی جائے گی۔ اجلاس کے دوران پاکستان انرجی ایفی شینسی اینڈ کنزرویشن بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی گئی۔کچھی کینال کرپشن کی تحقیقات عالمی آڈیٹر سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کچھی کینال منصوبے کی تحقیقات میں تاخیر پر وزارت پانی و بجلی سے اظہار ناراضگی کیا۔ کونسل نے صوبوں کے ذمہ بجلی بلز کے بقایاجات ایٹ سورس وصولی کے میکانزم پر اتفاق کیا۔ واجبات کی وصولی کیلئے ایٹ سورس کٹوتی ہو گی۔ صوبوں کو اپنے ذمہ بجلی کے واجبات یکم جولائی تک ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ طریق کار پر عمل فیڈرل ایڈجسٹ کے ذریعے یکم جولائی سے شروع ہو گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح 16 سے بڑھا کر 17 فیصد کی جائے گی۔ ایسے تمام ایس آر اوز جن میں سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد ہے ان میں ترمیم کر دی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاق اور صوبے تیس روز میں پرانے واجبات کا حساب کرینگے۔ اجلاس میں چھٹی مردم شماری کرانے کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کر دیا گیا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے صوبوں کے بجلی کے شعبہ میں قابل ادا واجبات کی ایٹ سورس کٹوتی کے طریقہ کار کی منظوری دی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس موقع پر بتایا کہ یہ طریقہ کار یکم جولائی 2014ء سے نافذ العمل ہوگا۔ اجلاس کے شرکاء نے پرانے واجبات کو طے کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبوں کے نمائندوں کو مل بیٹھ کر پرانے واجبات کے مسئلہ کو 30 دن کے اندر حل کرنا چاہئے۔ اس کی رپورٹ مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں پیش کی جانی چاہئے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے پیش کردہ تحفظات پر بلوچستان حکومت کے ساتھ بات چیت کی جانی چاہئے۔ اس کی رپورٹ دو ہفتے کے اندر پیش کی جائے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے گوادر پورٹ اتھارٹی ایکٹ میں ترامیم کی بھی منظوری دی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کا چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کرے گا۔ گوادر پورٹ اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کی 50 فیصد رکنیت کے معاملہ سے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس حوالے سے ایکٹ میں ترامیم کی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیٹ مینجمنٹ آپریشن میں بہتری کے لئے حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ جامع وسط مدتی ڈیٹ سٹریٹجی کی تیاری کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اجلاس نے 11 ویں پانچ سالہ پلان 2013ء تا 2018ء اور پاکستان وژن 2025ء کی بھی منظوری دی۔ ایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام بحال کرنے کا مقصد ملک بھر میں انتظامی امور کو بہتر بنانا، روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں اور ان کی کوالٹی پر نظر رکھنا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق صوبوں کے بجلی واجبات کی وفاقی سطح پر کٹوتی کا فارمولا دو ماہ کے لئے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فارمولا ابتدائی طور پر یکم جولائی سے 31 اگست تک نافذ کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 سے 12 فیصد اضافے کی تجویز دی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے پر صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا تنخواہوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ بجٹ سے پہلے کابینہ اجلاس میں کیا جائے گا۔ سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 سے 20 فیصد اضافے کی تجویز دی۔ سندھ حکومت کا بجٹ 12 جون کو پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق صوبوں کے ذمہ واجبات میں سے 25 فیصد کٹوتی ایٹ سورس ہو گی باقی 75 فیصد صوبائی حکومتیں اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مل کر طے کریں گی۔ صوبوں نے بجلی کے زائد بلنگ پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سندھ حکومت کا مؤقف تھا کہ کمپنیوں نے 20 ارب روپے غلط بلنگ کی مد میں ریفنڈ کئے 20 ارب میں سے 18 ارب صرف سندھ کو واپس کئے گئے صوبوں نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں بھرتی کئے گئے ملازمین کو لینے سے ا نکار کیا صرف ان ملازمین کو ضم کیا جائے گا جو 18ویں ترمیم سے پہلے بھرتی کئے گئے تھے۔ صوبوں کا مؤقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد بھرتی کئے گئے ملازمین کو مشروط طور پر لیں گے۔ دریں اثناء وزیراعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں 1310 ارب روپے کے ترقیاتی پلان کی منظوری دی گئی۔ وفاق کا ترقیاتی بجٹ 525 ارب روپے اور صوبوں کا 650 ارب روپے ہو گا۔ ہر صوبے کے دارالحکومت میں کینسر ہسپتال قائم کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دے کر کام کی رفتار تیز کی جائے۔ کوئٹہ میں صاف پانی کی فراہمی کی سکیموں کیلئے 10 ارب ر وپے خرچ ہوئے مگر زمین پر کچھ نہیں اس حوالے سے دس ارب روپے کہاں خرچ ہوئے؟ اس بارے میں وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم دیدیا۔ وزیراعظم نے بلوچستان حکومت کو توانائی کی کمی پوری کرنے کے لئے سولر پینلز منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ بھاشا ڈیم سمیت توانائی کے متعدد منصوبوں کی بھی منظوری دی گئی۔ کراچی کوسٹل اور داسو پاور پراجیکٹ بھی پروگرام میں شامل ہیں۔ گولان گول، جامشورو اور چیچوکی ملیاں پاور پراجیکٹ کی بھی منظوری دی۔ اجلاس میں فاٹا میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کی سست رفتاری اور کوئٹہ میں واٹر سپلائی سکیموں میں دس ارب ر وپے کی خورد برد پر وزیراعظم نے شدید اظہار برہمی کیا۔ اجلاس میں بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے صوبائی حکومت کو صوبے میں توانائی کی کمی پر قابو پانے کیلئے سولر پینل کا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی جس کیلئے فنڈنگ کا انتظام لاگت کا اندازہ ہونے کے بعد کیا جائے گا۔