سرکاری حج کوٹہ پرائیویٹ آپریٹرز کو دیکر عوام کا خون کیوں نچوڑا جا رہا ہے : ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے قرار دیا ہے کہ سستا حج عوام کا حق ہے۔ سرکاری حج کوٹہ پرائیویٹ آپریٹرز کو دے کر عوام کا خون کیوں نچوڑا جارہا ہے۔ سرکار کیا سوئی ہوئی ہے؟ عدالت عوامی حقوق غصب نہیں ہونے دے گی۔ وزیر عوام کے ووٹ سے آتے ہیں ان کو عوام کی نہ صرف نمائندگی کرنی ہے بلکہ اس کا خیال رکھنا ہے پوری دنیا میں مذہبی رسومات پر سبسڈی دی جاتی ہے ہمسایہ ملک بھارت میں حج سبسڈی پر کروایا جاتا ہے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس حج پالیسی 2014 کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ فاضل عدالت نے مزید سماعت 3جون تک ملتوی کرتے ہوئے مسابقتی کمشن اور حکومت پاکستان سے جواب طلب کر لیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت میں بحث کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 27اگست 2013 کو حکم دیا تھا کہ حج پالیسی آخری حج فلائٹ کے چھ ہفتے کے اندر اندر مکمل کی جائے تمام حج گروپ آرگنائزرز کی دستاویزات کی تصدیق کرنی اور حج پالیسی ایک کمیٹی نے تشکیل دینی تھی اس میں سیکرٹری مذہبی امور، نامزد اراکین، مسابقتی کمشن آف پاکستان، وزارتِ خارجہ، وزارتِ قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان ہونگے اور مسابقتی کمشن کی تجاویز پر عمل کرکے حج پالیسی بنائی جائے گی لیکن سپریم کورٹ کے تمام احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ حج پالیسی کے مطابق 15000/- کا سرکاری حج کوٹہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو دے دیاگیا سرکاری حج 2,72,000/-روپے میں ہورہا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ نے عدالت کو بتایا کہ حج پالیسی میرٹ پر بنائی گئی ہے۔ ذوالفقار عباس نقوی نے عدالت کو بتایاکہ 2013 میں وزارت مذہبی امور اور حج گروپ آرگنائزرز کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ ا س سال 12000 کا کوٹہ ہمیں دیں گے یہ پالیسی میرٹ پر ہے عدالت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ پالیسی قانون کے خلاف نہیں ہوسکتی 15000کا سرکاری کوٹہ جو سستا حج تھا وہ ٹور آپریٹرز کو کیوں دیا گیا حکومت عوام کی نگہبان ہے۔ عدالت نے مسابقتی کمشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب داخل کیوں نہیں کیا انہوں نے عدالت سے اجازت چاہی کہ تھوڑا سا وقت دے دیا جائے تاکہ جواب داخل کیا جاسکے۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ حج پالیسی کمیٹی بنائے گی کمیٹی کے ممبران نے انکار کردیا کمیٹی کے ممبران نے اقرار کیا کہ ان کی تجاویز پر حج پالیسی نہیں بنائی گئی۔ نصیر بھٹہ نے کہا کہ فاضل عدالت سیاسی باتیں کررہی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ریمارکس سے ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے انتخاب لڑنا ہے، عدالت نے کہا کہ انتخاب لڑنا آپ کا کام ہے ہمارا کام قانون کی پاسداری کرنا ہے۔ اس پر درخواست گذار کے وکیل نے کہاکہ آپ مسلم لیگ (ن) کا ایجنڈا لے کر نہ چلیں آپ آئین اور قانون کے مطابق بات کریں۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ عدالت سچ اور حقیقت پر فیصلے کرتی ہے اسے آئین تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی 70فیصد آبادی غریب لوگوں پر مشتمل ہے 2,72,000/-کا حج عام آدمی کتنی محنت سے اکٹھے کرکے کرنا چاہتا ہے آ پ اس کو پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے ذمے ڈال رہے ہیں جو 6/6لاکھ روپیہ فی حاجی وصول کرتا ہے۔ درخواست گذار نے عدالت کو بتایا کہ 1,27,586/- افراد سرکاری حج کرنا چاہتے تھے اتنی درخواستیں دیں مگر حکومت پاکستان نے صرف 53,814/- افراد کو کامیاب قرار دیاکیا یہ عوام کے ساتھ زیادتی نہیں ہم ایک اسلامی ملک ہیں حج پر تو سبسڈی ملنی چاہئے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ حکومت پاکستان، وزارت مذہبی امور، وزارت خاوجہ، وزارت قانون اگر جواب داخل کرنا چاہتے ہیں تو کریں ورنہ جو ریکارڈ پر ہے اس پر عدالت فیصلہ کر دے گی۔