سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بااثر افسر سرکاری رہائشگاہوں پر قابض
اسلام آباد (انعام اللہ خٹک/ دی نیشن رپورٹ) متعدد سینئر سرکاری افسران نے اسلام آباد میں غیرقانونی طور پر لگژری رہائشگاہیں حاصل کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خلاف ضابطہ الاٹ کی گئی رہائشیں خالی کرانیکی کوششیں اس لئے ناکام ہو گئی ہیں کہ ان افسران کو سیاسی تعاون بھی حاصل ہے۔ 2011ء میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ آفس اور وزارت ہائوسنگ اکاموڈیشن ایلوکیشن رولز پر عملدرآمد کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم ’’دی نیشن‘‘ کو حاصل ہونے والی دستاویز کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کے باوجود اسٹیٹ آفس اب تک طاقتور حلقوں کے اثر سے نہیں نکل سکا۔ اسٹیٹ آفس نے گزشتہ مہینے سپریم کورٹ کے حکمنامے پر عملدرآمد کی کوشش کی مگر طاقتور حلقوں کی مداخلت پر دبائو کا شکار ہو کر ایسا نہ کر سکا۔ ایسی ایک مثال ای او بی آئی کے سابق چیئرمین کی ہے جو اربوں کی کرپشن کے الزامات کے بعد قانونی کارروائی سے بچے ہوئے ہیں اور انہیں اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف 6/3 میں خلاف ضابطہ رہائش گاہ خالی کرنے کیلئے اسٹیٹ آفیسر کا نوٹس اور شوکاز نوٹس جاری کیا گیا مگر چیئرمین سینٹ نیر بخاری کے دستخط سے ایک سٹے آرڈر جاری کر دیا گیا اور معاملہ شاہی سید کی سربراہی میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے زیرتحت آنے والے معاملات میں چیئرمین سینٹ کو سٹے آرڈر جاری کرنے کا حق نہیں ہے۔ ذرائع نے اس حوالے سے بتایا کہ ایک اجلاس میں سٹیٹ آفس کے افسران پر دبائو ڈالا گیا کہ یہ رہائش گاہ خالی نہیں کی جائیگی۔ اس میٹنگ میں وزیر مملکت برائے ہائوسنگ عثمان ابراہیم بھی موجود تھے جنہوں نے گوجرانوالہ کے اس قابض بیورووکریٹ کی حمایت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس طرح دیگر بہت سے سرکاری افسران بھی اسی طرح خود کو قانون سے ماورا سمجھتے ہوئے حکومتی مراعات حاصل کئے ہوئے ہیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر جو 2008ء میں ریٹائر ہو گئے تھے جس کے بعد وہ ایک محتسب بن گئے ہیں اور بڑا پیکیج حاصل کتے رہے، انکا کنٹریکٹ گزشتہ سال ختم ہو چکا مگر وہ اب بھی مراعات حاصل کئے ہوئے ہیں۔ ڈی ایم جی گروپ کے 22 گریڈ کے ایک افسر، 19 گریڈ کے ایک ٹیچر، 17ویں گریڈ کی ایک لیڈی ڈاکٹر، ایف سی کالج فار ویمن میں 18ویں گریڈ کی ایک لیڈی ڈائریکٹر اور دیگر سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے بھی خلاف ضابطہ سرکاری رہائش گاہیں حاصل کرنے کی اطلاعات ہیں۔