سیالکوٹ۔ سونامی۔ 2 کنال کے 2 عدد رہائشی پلاٹ
آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ورنہ صرف چار حلقوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی چیکنگ سے فرق کیا پڑتا ہے؟ یہ کوئی غیر اخلاقی مطالبہ بھی نہیں۔ آپ اسے غیرجمہوری بھی نہیں کہہ سکتے۔ اسلام آباد ڈی چوک میں کامیاب شو کے بعد سونامی فیصل آباد دھوبی گھاٹ پہنچ گیا۔ یہ دھوبی گھاٹ بھی لاہور موچی دروازہ کی طرح ایک تاریخی جلسہ گاہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سونامی دھوبی گھاٹ پہنچ کر نہ ہی گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا۔ یہ محاورہ کچھ دھوبی کے وفادار اور پالتور جانور سے خاص ہے۔ کہنے والوں نے اشاروں کنایوں میں کیا بدتہذیبی کی ہے۔ نوکری پیشہ لوگ اپنے مالکان کی خوشنودی ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں۔ ادھر فیصل آباد والے نرے بھولے شاہ نہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ لکی ایرانی سرکس مفت کیوں دکھائی جا رہی ہے۔ پھر نصیبو لعل کا بغیر ٹکٹ لائیو پروگرام‘ ’پیوکہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید“ اس دریادلی پر اہل فیصل آباد بالکل حیران نہیں۔ کوئی زیرلب اور کوئی زیر مونچھ کھڑا مسکرا رہا ہے۔ وہ سب خوب جانتے ہیںکہ ”مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام اور اب ساقی جو مہرباں ہے تو کیوں اتنا مہرباں ہے۔“ پھر بہت سوں نے لکی ایرانی سرکس دیکھی۔ نصیبو لعل کے گانے سُنے‘ پھر دھوبی گھاٹ پہنچنے سے محروم رہ گئے‘ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہزاروں کے جلسے میں دو تین ہزار بندے کم پڑ جائیں تو کیا ہو جاتا ہے۔ جیسے یہ بات بے معنی ہے کہ لیپ ٹاپ پر کس کی تصویر ہے۔ بامعنی بات یوں ہے کہ سرکار سے مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے کے دل پر کس کی تصویر ہے۔ بھائی! اگر آپ اتنی معمولی بات بھی نہیںجانتے تو پھر آپ کو یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔ آخر کیا کریں گے آپ اتنی الم غلم معلومات اکٹھی کرکے۔ محرم رازدرون میخانہ‘ چودھری شجاعت حسین کہہ رہے ہیں کہ مارشل لاءکے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ فصل پکنے میں تھوڑا وقت ضرور لگے گا۔ آئندہ دو تین ہفتے بڑے اہم ہیں۔ حکومت کے ساتھ کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔ خیر پاکستان میں کسی حادثے کا اندیشہ ہر وقت رہتا ہے۔ ان حادثوں کے ڈر سے نہ ہی وزیراعظم کے غیرملکی دورے رک سکتے ہیں اور نہ ہی سونامی اپنا سفر روک سکتا ہے۔ سو! 7 جون کو سونامی سیالکوٹ پہنچے گا۔ یہ وہاں ڈار برادران کا مہمان ہوگا۔ ڈار برادران نے محاورہ الٹ ثابت کر دیا ہے۔ مان نہ مان میں تیرا میزبان۔ فیصل آباد دھوبی گھاٹ جلسہ کے سٹیج پر جب عمران خان نے سونامی کے اگلے پڑاﺅ سیالکوٹ کا اعلان کیا تو فرط جذبات میں مغلوب ان کے پیچھے کھڑے عمر ڈار نے جھٹ سے ان کے ہاتھ سے مائیک پکڑا اور اعلان کر دیا ”اے سیالکوٹ والو تیار ہو جاﺅ‘ وہ بین السطور کہہ رہے تھے کہ میں اس سونامی کا میزبان ہوں اور ہر طرح سے تیار بھی ہوں۔ اہالیان سیالکوٹ عمر ڈار کی تیاریوںسے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ بینروں‘ اشتہاروں اور بڑی بڑی جہازی سائز سکرینوں سے شہر بھرنا جانتے ہیں۔ اب مہمان تو وہی ٹھہرا سکے ہے جس کے ہاں گیسٹ روم ہوگا اور روٹی پانی بھی وافر۔ حضرت ضمیرجعفری فرمایا کرتے تھے ”پتلے شوربے سے گھنے نتائج برآمد نہیں ہوا کرتے۔“ رہا گاڑھے شوربے کو ہضم کرنے کا معاملہ‘ ہمارے معدے لکڑہضم پتھر ہضم کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر ہمارے لیڈران کرام کے معدے عوام الناس سے طاقت میں دوچند اور سہ چند بتائے جاتے ہیں۔ لت چاہے دولت جمع کرنے کی ہو یا پلاٹ اکٹھے کرنے کی‘ یا پھر افیون کھانے کی‘ ایک ہی بات ہے۔ ایک افیونچی کا قصہ سنیں! اے خواب غفلت میں گہری نیند سونے والے پاکستانیو! اس قصہ میں تمہارے لئے نیند سے بیدار ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں۔ یہ قصہ کہانی ان وقتوں کا ہے جب افیون کے سرکاری ٹھیکے ہوا کرتے تھے۔ ایک روز کسی مذہبی تقریب کے باعث شہر کے تمام افیون کے ٹھیکے بند کر دیئے گئے۔ ایک افیونچی افیون کی تلاش میں کئی میل کی مسافت طے کرکے دوسرے شہر پہنچا تو اس نے وہاں بھی ٹھیکے بند پائے۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں سے تین میل کے فاصلے پر ایک گاﺅں میں ایک ٹھیکہ کھلا ہے۔ وہ مصیبت کا مارا رینگتا رانگتا وہاں جا پہنچا۔ دور سے ٹھیکے کا چراغ جلتا دیکھ کر اس کی روح میں بالیدگی اور آسودگی آگئی۔ روح تک پہنچ گئی تاثیر مسیحائی کی۔ اک عجب امید وبیم کے عالم میں اس نے ٹھیکیدار سے پوچھا افیون ہے؟ ٹھیکیدار بولا ہاں‘ آپ کو کتنی چاہئے؟ اس استصواب سے مست ہوا وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ ”تیری ”کتنی“ کی خیر۔ تیری ”کتنی“ پر قربان۔ یہ کہہ کر وہ ناچنے لگا۔ یہ منظر نامہ ہم نے نہیں دیکھا‘ لیکن یقین سے کہتے ہیں کہ یقیناً کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا جب مقامی نوکر شاہی کی پیدا کردہ پیچیدگیوں اور الجھنوں سے بچنے کیلئے ایک ٹاﺅن ڈویلپر نے سیالکوٹ کی اہم ترین سیاسی شخصیت سے پوچھا کہ آپ کو کتنے رہائشی پلاٹ چاہئیں؟ واہ! کتنے لفظ کتنا مزیدار اور لذیذ ہے۔ پھر دو دو کنال کے دو پلاٹ بخش دیئے گئے۔ مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال سمجھی جاتی ہے۔ پھر یہ تو اللہ کی پاک زمین کے رہائشی پلاٹ تھے۔ ان پلاٹوں کے ایجاب و قبول کا مرحلہ طے ہوا۔ وہ ٹاﺅن ڈویلپر یہ بھی جانتا تھا کہ ادھر ادھر جھانکنے کے بجائے صرف بجلی کا وزیر ہی اس کی کالونی کے اندھیرے دور کر سکتا ہے۔ سو اس نے اس لوڈشیڈنگ زدہ ملک میں دو رہائشی پلاٹوں کے عوض ڈھیروں روشنیوں کا بندوبست کر لیا۔ اب راشی رشوت کہاں مانگتے ہیں‘ وہ کچھ ایسا بندوبست کرتے ہیں کہ غرض مند خود ہی دست بستہ مرتشی بننے کو حاضر ملتا ہے۔ جماعت اسلامی کے درویش منش امیر سراج الحق کے مطابق ”آسمان کرپٹ ٹولے سے بہت اونچا ہے ورنہ وہ اسے بھی کھا جاتے۔“ جناب سراج الحق نہیں سمجھتے کہ آسمان پر رہائشی پلاٹ نہیں پائے جاتے ورنہ آسمان بھی کرپٹ ٹولے کی دسترس سے کچھ دور نہیں۔ ہم نے بچپن سے مصر کے محمد حسین ہیکل اور مولانا شبلی نعمانی کی حضرت عمر فاروقؓ کے بارے کتابیںپڑھ رکھی ہیں۔ ہم اس مراد رسول‘ عظیم المرتبت شخصیت کی عظمت سے آگاہ ہیں‘ لیکن میرے سات سلام اس بدو کو ہیں جس نے سر مجلس ان سے کرتے کی بابت سوال کیا تھا۔ ہمیں سوال پوچھنے والے اچھے لگتے ہیں۔ سوال پوچھنے والے بدو ہی کسی معاشرے کو زندہ رکھتے ہیں۔ سونامی 7 جون کو سیالکوٹ پہنچے۔ گا۔ یہ سوالات کا سونامی ہے۔ 4 حلقوں میں انگوٹھوں کی چیکنگ کے سوالات ہیں۔ سوالات کے اس جھمیلے میں دو رہائشی پلاٹوں کا سوال کہیں گم نہ ہو جائے۔ مجھے امید ہے کہ سیالکوٹ کے بے باک کالم نگار برادرم آصف بھلی اس سوال پر نظر رکھیں گے۔