ممنون صدر اور ’’صدر‘‘ زرداری میں کیا فرق ہے
صدر ممنون حسین نے آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا مگر ایک جملہ بھی نہیں جو میں لکھ سکوں۔ خبر یہ ہے کہ ان کا خطاب سننے وزیراعظم نواز شریف بھی پارلیمنٹ میں تشریف لے آئے اس طرح سینٹ میں بھی ان کی شرکت ہو گئی۔ ایم کیو ایم کے برادرم حیدر عباس نوٹ کر لیں۔ پروٹوکول کے لحاظ سے صدر بہت بڑا ہے مگر پروٹوکول وزیراعظم نواز شریف کا بہت زیادہ ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھنے لگا کہ اگر امتحان میں یہ سوال آ جائے کہ صدر زرداری اور ممنون صدر کا موازنہ کرو۔ میں نے کہا کہ صرف یہ لکھو، وزیراعظم نواز شریف نے ممنون حسین کو صدر بنوایا اور صدر زرداری نے نااہل اور کرپٹ گیلانی اور راجہ رینٹل کو وزیراعظم بنایا۔ اس طرح نواز شریف اور گیلانی وغیرہ کا بھی موازنہ ہو جائے گا۔ صدر ایوب ضیاء اور مشرف تو جرنیل تھے۔ سویلین یعنی سیاسی یعنی جمہوری صدر کے حوالے سے ایک ہی نام چمکتا، بجھتا ہے بجھ کر پھر چمکنے لگتا ہے اور وہ ہے صدر زرداری، سابق ہونے کے بعد بھی وہ ’’صدر‘‘ ہی ہیں۔ بے شک وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے پوچھ لیں۔ نواز شریف بھی کوئلے کا افتتاح ان کے ساتھ مل کر کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہو۔ ’’سانولا‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ بھٹو صاحب بھی جتنا عرصہ صدر تھے تو حکمران تھے۔ وزیراعظم بنے تو بھی حکمران تھے۔ یہ شخصیت پر منحصر ہے۔ وہ تو سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور یہ دنیا کی شاید پہلی اور آخری مثال ہے۔ پھر کئی بے چارے اس کی خواہش کرتے ہوئے چلے گئے مگر خواہش مرتی نہیں۔ بندہ کوشش میں مر جاتا ہے۔ میرا ایک جملہ غور طلب ہے۔ سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔ جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی۔ دونوں ناکام ہوئے۔ بدنام ہوئے۔ لوگوں کا اس فوجی اور سیاسی بدنظمی (نظام) میں بھلا نہ ہوا۔
میں برادرم فواد چودھری سے شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اگر بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم بنے گا تو زرداری صاحب صدر نہیں ہونگے۔ اس لئے بلاول کبھی وزیراعظم نہیں بنے گا؟ اقتدار کی باری میں نمبر انہی کا ہے؟ میرے خیال میں سیاست کے حوالے سے ’’صدر‘‘ زرداری بھٹو صاحب سے آگے آگے ہیں مگر انہوں نے کہا یہ ہے کہ میں بھٹو صاحب کے پیچھے پیچھے ہوں۔ بلاول کے کام میں بھٹو پہلے ہے اور زرداری بعد میں ہے۔ اس نے بختار بھٹو زرداری کو ساتھ ملا لیا ہے۔ آصفہ بھٹو زرداری پہلے ہی ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ مجھے بلاول اور بختاور پسند ہیں۔ آصفہ بھی بیٹی ہے۔ اس کا نام شہید بی بی نے قیدی شوہر کی یاد میں رکھا تھا۔ پھر قیدی اور قائد کا فرق ہی مٹا دیا گیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے ایوان صدر کو پارلیمنٹ اور سیاسی دفتر بنا لیا تھا۔ تب ہر کوئی ایوان صدر جانا چاہتا تھا۔ پارلیمانی نظام کی حکومت میں بھی صدر چاہے تو اپنے وقار اور اعتبار کا خیال رکھ سکتا ہے۔ صدر رفیق تارڑ اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔ وہ صدر فضل الٰہی اور ممنون صدر سے مختلف نہ تھے مگر محترم اور ممتاز تھے۔ اس میں برادرم عرفان صدیقی کا بھی کردار ہے۔ صدر تارڑ نے مجھے بتایا کہ صدر فضل الٰہی اچھی روایات اور سلیقے کے آدمی تھے مگر ان کے لئے لطیفے بہت چلے۔ لطیفے تو ممنون صدر کے بھی موبائل فون پر چل رہے ہیں۔ مگر ان کی وفا حیا کے بھی بہت قصے مشہور ہیں۔
پیپلز پارٹی کے صدر لغاری بھی مشہور ہیں کہ انہوں نے اپنی ہی پارٹی لیڈر بی بی بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑی مگر وہ صدر اسحاق نہ بن سکا جس نے نواز شریف کی حکومت بھی توڑ دی۔ الزام ایک ہی تھا۔ کرپشن اور اختیارات کا بے تحاشا اظہار اور استعمال۔ مجھے صدارتی نظام پسند ہے مگر اس کے لئے بھی نیم جمہوری نیم عوامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ آمرانہ جمہوریت اور جمہوری آمریت سے نجات نہ مل سکی۔ کئی بار میرے جیسا قلندر آدمی بھی تقریبات کا صدر بن چکا ہے۔ مجھے بھی بڑے بڑے مقررین اور دانشور جناب صدر کہتے رہے۔
یوم تکبیر پر دلیراور بے باک منہ پر سچی بات کر جانے والے شاندار ماضی کے اکیلے عظیم ایڈیٹر مجید نظامی کی صدارت میں وزیراعظم نواز شریف اچھے بچوں کی طرح ان کے پہلو میں مودب بیٹھے تھے۔ ان کی علامتی اور ملامتی گفتگو حاضرین کی سمجھ میں آئی تو نواز شریف کی سمجھ میں بھی آئی ہو گی۔ وہ ان باتوں کو پلے باندھ لیں۔ یوم تکبیر ایٹمی دھماکوں کی گواہی ہے۔ یہ دھماکے نواز شریف نے بھارت کے مقابلے میں کئے تھے۔ وزیراعظم بھارت لال بہادر شاستری اس خوف سے مر گیا مگر پاکستان دشمنی سے باز نہ آیا۔ نریندر مودی بھی باز نہیں آئے گا۔ نواز شریف اگر مجید نظامی کی باتوں پر غو رکریں تو ان کے حق میں بہت اچھا ہو گا۔ ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ کامیاب سیاست میں دوست دشمن کی پہچان بڑی ضروری ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی کامیاب سیاست کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے دوست کے اندر دشمن اور دشمن کے اندر دوست کو پہچان لیا تھا۔ اب بھی ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی وزیراعظم ’’صدر‘‘ زرداری نے بنایا ہے مگر گیلانی اور راجہ نواز شریف کے قدموں کی خاک کے برابر نہیں ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری بھی جانتے ہیں کہ کس آدمی کے ساتھ کس وقت کس طرح کے روابط رکھنا ہیں۔ وہ بھی کبھی کبھی اس گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں؟ مزید خوشامد اور کالموں میں تعریف پورا سچ نہیں ہوتا۔ سچ کچھ اور چیز ہے۔ اس کے لئے جھوٹ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
نااہل منافق اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کو صدر زرداری نے گھر بھجوایا اور پھر اس کے گھر بھی پہنچ گئے۔ یہ سیاست ہے۔ سیاست یہ بھی ہے کہ ممنون حسین صدر پاکستان بن گئے ہیں۔ پارلیمنٹ سے خطاب بھی ایک روایت ہے مگر وہ کوئی ایک حکایت تو ایسی چھوڑ جائیں جسے لوگ عنوان بدل بدل کے دہراتے رہیں۔ صدر محترم کچھ کر جائیں کچھ تو کر جائیں۔ یہی معلوم کریں کہ ’’صدر‘‘ زرداری میں کیا تھا؟ انہوں نے ملک و قوم کے لئے کچھ نہیں کیا مگر پچھلے دنوں کراچی کے ایک اجلاس میں وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل کو اپنے ایک طرف بٹھایا اور دوسری طرف ’’صدر‘‘ زرداری تھے۔ جبکہ کراچی کے معاملات ان کے زمانے میں اتنے ہی خراب تھے؟ ان سے نواز شریف کیا مدد چاہتے تھے؟ جس طرح آج ممنون صدر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کل راجہ رینٹل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی ’’صدر‘‘ زرداری کے حضور بیٹھے ہوتے تھے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کا یہ احسان کم نہیں کہ گیلانی توہین عدالت میں گھر گئے۔ کرپشن کے الزام سے ہی بچا لئے گئے۔ آج ’’صدر‘‘ زرداری کو دکھ ہے کہ ان دونوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں۔ کون انتقام لے رہا ہے۔ ہماری سیاست و حکومت یعنی جمہوریت میں انتقام اور انعام ایک طرح سے استعمال ہوتے ہیں۔ ممنون صدر کے خطاب کے لئے سنیٹر ڈاکٹر بابر اعوان کے یہ الفاظ کافی ہیں۔ ’’غلطی سے پی ٹی وی کا خبرنامہ ممنون صدر کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ جو انہوں نے فر فر پڑھ دیا۔‘‘