وزیراعظم کے لئے میری امڈی ہوئی مبارکباد
نواز شریف کو میں تو مبارکباد ہی دینا چاہتا ہوں مگر حکومت مخالف لوگوں کو ان کی اس تلقین نے مجھے کئی بار سوچنے پر مجبور کر دیا ’’بھئی ہماری ٹانگیں نہ کھینچیں، ہمیں کام کرنے دیں‘‘ اگر میں خود بھی ان کی یہ تلقین پلے باندھ لوں تو پھر میں اپنے ممدوح وزیراعظم کو مبارکباد بھی نہیں دے پائوں گا حالانکہ اس مبارکباد کے لئے میرا خلوص امڈا پڑ رہا ہے، جناب پہلے مبارکباد وصول کر لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مبارکباد تھامے تھامے میں اس کا بوجھ سہار ہی نہ پائوں اور آپ سے وہی استفسار کر بیٹھوں جو گذشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے موقع پر میرے ایک ’’پیٹی بند‘‘ بھائی نے ان سے کیا کہ آپ 12 ہزار روپے میں کسی گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔
ارے ہم بھی کتنے ناشکرے لوگ ہیں دو سال قبل کی کم سے کم اُجرت آٹھ ہزار روپے پر تو گھر کے بجٹ بنتے رہے مگر مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے پہلے بجٹ میں ہی کم از کم اُجرت 9 ہزار روپے مقرر کر دی پھر بھی یار لوگ خوش نہ ہوئے اور سوال اٹھانے لگے کہ جس تناسب سے مہنگائی بڑھی ہے کیا کم از کم اُجرت میں ایک ہزار روپے کی بڑھوتی مہنگائی کے اس جِن کا سامنا کر سکتی ہے۔ اب کی بار حکومتی اقتصادی مشیروں نے عوام کو خوش کرنے کے لئے کم از کم اُجرت کے لئے گیارہ ہزار روپے کا فیگر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں شامل کرا دیا تاکہ ان کی تقریر کے دوران کم از کم سرکاری بنچوں کی جانب ہے تو زیادہ ڈیسک بجائے جا سکیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے اور تیر مارا۔ جب وہ کم از کم اُجرت کا اعلان کرنے لگے تو ان کی زبان چھلانگ لگا کر گیارہ ہزار کا فیگر عبور کر گئی اور 12 ہزار تک جا پہنچی۔ کیا اس کے بعد بھی ان کی بجٹ تقریر پر تنقید کی کوئی گنجائش نکلتی تھی جبکہ انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں غریبوں کے لئے امدادی رقم ماہوار ایک ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ ہزار کر دی مگر یار لوگ 18 سو سی سی اور اس سے اوپر کی گاڑیوں کو سستا کرنے کا قصہ لے بیٹھے ہیں۔ ’’بھئی یہ بجٹ تو مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات کے تحفظ کے لئے ہی تیار کیا گیا ہے۔‘‘ کلرک بادشاہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، بجٹ کے اگلے روز اسلام آباد کے ریڈ زون میں جا کر پارلیمنٹ ہائوس پر چڑھائی کر دی، پس ایک ہی تکرار تھی ’’12 ہزار نامنظور‘‘ تقاضہ کم از کم اُجرت میں 50 فیصد اضافے کا ہُوا جو اسلام آباد پولیس نے ان پر آنسو گیس کے شیلوں اور لاٹھیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ان کا بھرکس نکال کر پورا کیا۔ دوسرے مزدور طبقات، طلبہ اور خواتین خانہ بھی مضطرب ہیں تو ایسی کیا آفت آن پڑی ہے کہ وفاقی بجٹ کے بعد انہیں اپنے گھر کے بجٹ کی زیادہ فکر لاحق ہو گئی ہے، اس کے لئے برادر مکرم ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے والد مرحوم کے حوالے جو فقرہ اپنے کالم میں استعمال کیا وہ میرے دل میں بیٹھ گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کے والد مرحوم نے اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور بھجوانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے اپنے والد سے کہا کہ آپ کی تنخواہ میں تو پہلے ہی گزارا نہیں ہو پا رہا تو میرے اضافی اخراجات کے بعد گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔ اس پر ان کے والد نے جو فقرہ ادا کیا وہ ادبِ لطیف کا شہہ پارہ ہے ’’جب گزارا ہی کرنا ہے تو وہ کم میں بھی ہو جاتا ہے، آپ ہماری فکر نہ کریں اور اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور روانہ ہوں۔‘‘ ذرا تصور کیجئے اگر یہی مثبت سوچ ہر گھرانے کے سربراہ کی ہو تو کیا کسی کو گزر اوقات نہ ہونے پر مضطرب ہو کر احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اگر یہی مثبت اور تعمیری سوچ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے قائدین کے ذہنوں میں پیدا ہو جائے تو کیا انہیں پروٹوکول والی پُرتعیش زندگی گزارنے اور اس کی خاطر بجٹ میں ناروا ٹیکسوں اور ایکسائز ڈیوٹیوں کی شکل میں پہلے ہی گزارا نہ کر پانے والے مقہور عوام الناس پر مزید بوجھ ڈالنے کی کوئی راہ سوجھے۔ سادگی میں بلاشبہ سو سُکھ ہوتے ہیں، سادگی کا چلن کرشماتی قائدین کی سطح سے شروع کیا جائے اور ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی حقیقی نیت سے سرکاری اخراجات کو کفایت شعاری کا ٹانکا لگا کر کنٹرول کیا جائے تو کسی بجٹ میں آپ کو ڈیسک بجوانے کی خاطر دکھاوے کے دل خوش کن اعلانات کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی۔ مگر اس بجٹ کو ہی دیکھ لیں اس میں سرکاری اخراجات کی ساڑھے 86 ارب روپے کی رقم کے علاوہ حکومتی گورننس بہتر بنانے کیلئے دو کھرب 71 ارب روپ مختص کر دئیے گئے ہیں ایسے میں حبیب جالب کا شعر بے ساختہ یاد آنے لگتا ہے کہ ؎
کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ارے، میں یہ کیا بیکار بحث لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ میں نے تو آج محترم وزیراعظم کو ان کے تیسرے اقتدار کا پہلا سال مکمل ہونے پر صرف مبارکباد دینی ہے۔ انہوں نے بے شک انتخابی مہم کے دوران عوام کا دل لبھانے کو انہیں بہت سارے سُندر سپنے دکھائے تھے مگر انہوں نے اپنے اقتدار کی شروعات ہونے سے بھی پہلے گذشتہ سال کے یومِ تکبیر کے موقع پر ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں تقریر کرتے ہوئے باور کرا دیا تھا کہ وہ دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہا سکیں گے۔ سو انہوں نے اپنے اقتدار کا پہلا سال عوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہائے بغیر گزار کر دکھا دیا ہے۔ کیا اس پر وہ مبارکباد کے مستحق نہیں ہیں۔ 3 جون کو قومی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی محترم وزیراعظم کو اسی حوالے سے مبارکباد پیش کی کہ اگرچہ ہم دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہا سکے مگر وزیراعظم نے اپنے ویژن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مشکل فیصلے کر کے دکھائے ہیں۔ ذرا سوچئے، یہ مشکل فیصلے کون کون سے ہو سکتے ہیں۔ ارے نہیں اندازہ ہو پا رہا تو میں آپ کو بتاتا ہوں۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کی جنگ میں عوام کے ساتھ فوجی افسران اور جوانوں کا خون بہتا دیکھ کر بھی ایک سال دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ڈول ڈالتے ڈالتے گزار دیا ہے۔ کیا یہ مشکل فیصلہ نہیں مگر ان کا ’’وژن‘‘ کمال کا ہے۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کا آسان راستہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا تھا مگر انہوں نے توانائی کے حصول کے لئے پانی کے منصوبوں کے بجائے کوئلے، ہَوا، شمسی توانائی اور ایٹمی توانائی کے ذریعے اس بحران کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اپنے اقتدار کا ایک سال پورا کرنے پر وہ قوم کو یہ نوید سنانے کی پوزیشن میں آئے ہیں کہ 2018ء قوم کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کی خوشخبری دینے کا سال ہو گا۔ آپ اس مشکل فیصلے میں موجود وزیراعظم کے ’’وژن‘‘ کی تو داد دیں اور پھر اس سے بڑا مشکل فیصلہ کوئی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بھارتی لیڈران کی جانب سے پاکستان دشمنی کو انتہا تک پہنچانے کے باوجود اپنا یہ عہد نبھا کر دکھایا کہ اگر انہیں دورۂ بھارت کی دعوت نہیں ملے گی تو بھی وہ چلے جائیں گے کہ ہم نے اپنے اس دشمن کے ساتھ بنا کر رکھنی ہے چاہے تو وہ ہمارے دوسرے گال پر بھی کیوں نہ چپت لگاتا پھرے اور چاہے پورے کشمیر کا ہی کیوں نہ رگڑا دے جائے۔ آپ محترم وزیراعظم کے ’’وژن‘‘ کو دیکھیں اس بیکار بحث میں نہ الجھیں کہ آپ ہمیں 12 ہزار روپے میں کسی گھر کا بجٹ بنا کر تو دکھائیں۔ آپ بس دہی کے ساتھ کلچہ کھائیں اور ہر غم بھول جائیں۔ ہمارے وزیراعظم کے اقتدار کا ایک ایک سال اسی طرح پورا ہوتا رہا تو شاید وہ گھرانے ہی موجود نہیں رہیں گے جن کے لئے 12 ہزار روپے میں بجٹ بنانے کا انہیں چیلنج دیا جا رہا ہے۔