بجٹ دعوے،حقیقت اور الطاف حسین کی آزمائش
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تاریخ کی طویل ترین تقریر کرکے 1422 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ان کے دعوں پر یقین کرلیں اور ان کی باتیں سن کر خوش ہوجائیں۔ حکومت کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی اگر تسلی بخش ہوتی تو عوام یقین کرلیتے کہ اگلا سال بھی بہتر ہوگا۔ گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے نے عوام کو اندیشوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق 50 فیصد پاکستانی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ زراعت کی نمو کا ٹارگٹ 3.8 فیصد جو پورا نہ ہوسکا اور 2.1 فیصد رہا۔ مہنگائی میں 8.5 فیصد اضافہ اور بے روزگاری میں 6.2 فیصد اضافہ ہوا۔ افراط زر ہدف سے زیادہ رہا اور ٹیکس کا ٹارگٹ بھی پورا نہ ہوسکا۔ ماضی کا آئینہ دکھا کر اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ عوام یقین کرلیں کہ اگلے سال دودھ کی نہریں بہنے والی ہیں۔ اسحاق ڈار نے 1998ءمیں وزیر خزانہ کی حیثیت میں بجٹ میں جعلی اور بوگس اعداد و شمار دئیے تھے اور آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو کروڑوں روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) پندرہ سال میں کوئی اور اہل و تجربہ کار اکانومسٹ بھی پیدا نہیں کرسکی۔ قومی خزانہ اپنے قریبی عزیز کے پاس رہے تو خاندان کے مفادات محفوظ رہتے ہیں۔ دو سیاسی خاندانوں نے ملی بھگت کرکے جس طرح عوام کو نچوڑا ہے اس کا حساب ایک دن عوام کی عدالت یا پھر خدا کی عدالت میں ضرور دینا پڑے گا۔ 2014-15 وفاقی بجٹ کو روایتی بجٹ کہا جارہا ہے جس میں ایسے دعوے بھی کیے گئے ہیں جن کے بارے میں حکمران بھی جانتے ہیں کہ وہ پورے نہیں ہوسکتے مگر عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے دعوے کرنے میں کیا حرج ہے۔
وفاقی وزیر نے بجٹ میں 600 ارب نئے ٹیکس جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر گزشتہ ایک سال میں ایف بی آر میں اصلاحات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جو ہر سال 500 ارب روپے ہڑپ کرجاتا ہے۔ اب اسی کرپٹ ادارے سے 600 ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔ حکومت اگر نیک نیت ہو تو ٹیکس نادہندہ تاجروں اور صنعت کاروں کو ریاستی طاقت استعمال کرکے ٹیکس وصول کرے تو بجٹ خسارہ ختم بھی ہوسکتا ہے مگر حکمران اپنے اتحادیوں کو ناراض نہیں کیا کرتے جبکہ وہ ”پارٹی فنڈ“ دینے پر بھی آمادہ ہوں۔ وفاقی بجٹ میں مثبت فیصلے بھی شامل ہیں۔ نوجوانوں کے لیے قرضے، گھروں کی تعمیر کے لیے آسان قرضے، بے نظیر انکم سپورٹ سکیم میں اضافہ، کم از کم تنخواہ بارہ ہزار روپے، پنشن میں اضافہ اور ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ، ہیلتھ انشورنس سکیم مثبت اور خوش آئند فیصلے ہیں۔ ٹیکسٹائل، لیدر، کارپٹ، سرجیکل اور سپورٹس کی صنعتوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومت کی سکیموں کا مرکز و محور حکومتی جماعت کا ووٹ بنک ہی رہتا ہے۔ پی پی پی کی طرح مسلم لیگ(ن) بھی اپنے ڈیڑھ کروڑ ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ انتخاب میں بھی ان کو ووٹ مل سکیں۔ سیاسی مصلحت پر مبنی ایسی حکمت عملی سے عوام کی واضح اکثریت قومی وسائل سے محروم رہتی ہے اور غربت، جہالت، بے روزگاری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر حکومت مالی امداد کی سکیمیں بنانے اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی بجائے ہریونین کونسل میں معیاری سکول، ہسپتال اور سستی عدلیہ (قاضی یا جج) بنادے تو پاکستان کے ہرشہری کو بلاامتیاز فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ کام چونکہ سیاسی عزم اور شب و روز محنت سے ہوسکتا ہے اور اس میں کرپشن کے امکانات بھی بہت کم ہیں اس لیے یہ کام بے لوث قیادت ہی کرسکتی ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ حقیت یہ ہے بیرونی قرضوں اور سعودی گفٹ سے ذخائر بڑھے ہیں اس میں حکومت کی کارکردگی کا کوئی کمال نہیں ہے۔ جو حکومت ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرلے اس سے آزاد، منصفانہ اور عوام دوست بجٹ کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔پاکستان بیرونی قرضوں کی سولی پر لٹکا ہوا ہے جبکہ حکمران عیش و عشرت میں مصروف ہیں۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں وعدہ کیا گیا کہ ہر آمدن پر ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ حکومت زراعت کی آمدن اور کئی دوسری آمدنیوں پر ٹیکس لگانے سے گریز کررہی ہے کیونکہ تحریری وعدے ”قرآن و حدیث“ نہیں ہوتے۔ وفاقی وزیرداخلہ دعوے کررہے ہیں کہ مہنگائی نہیں بڑھے گی۔ حضور ذرا بازار جانے کی تکلیف گوارا کریں مہنگائی تو بجٹ سے پہلے ہی بڑھ چکی ہے جو بیڈ گورنینس کا کھلا ثبوت ہے۔ میری بیگم بتا رہی تھیں کہ جو گروسری انہوں نے اپریل میں 7500/- میں خریدی وہ مئی میں 9500 روپے اور جون میں 11500 روپے میں ملی۔ ایک تجزیہ نگار نے درست کہا ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں کیمیو تھراپی جیسے اقدامات کی ضرورت تھی جبکہ اینٹی بائیٹک سے کام چلایا گیا ہے۔ ایک موقر انگریزی اخبار نے قومی بجٹ کے بارے میں یہ سرخی سجائی ہے۔ "Relief for Rich Peanuts for the Poor" ”امیروں کے لیے ریلیف اور غریبوں کے لیے مونگ پھلی“۔
ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما الطاف حسین آجکل اپنی سیاسی زندگی کی بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں ان کو برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تفتیش کے دوران الطاف حسین کی رہائش گاہ سے چار لاکھ پاﺅنڈ برآمد ہوئے تھے جس کے قانونی سورس کے بارے میں برطانوی پولیس مطمئن نہ ہوسکی۔ پولیس چونکہ اس مقدمے میں الطاف حسین کا بیان ریکارڈ کرنا چاہتی ہے اس لیے برطانوی قوانین کے مطابق پولیس نے ان کو گھر سے گرفتار کرلیا۔ برطانیہ میں چونکہ انسانی حقوق کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے صحت کی خرابی کی بناءپر الطاف حسین کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جب ڈاکٹر ان کی صحت یابی کی تصدیق کریں گے تو برطانوی پولیس ان کا بیان ریکارڈ کرے گی اور قانون اپنا راستہ لے گا۔ برطانوی حکومت کو اپنے نظام انصاف کو ہرصورت بچانا ہے اور الطاف حسین کے مسئلہ کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے اس لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو برطانوی حکومت کی مجبوری کا ادراک کرنا پڑا۔
الطاف حسین پاپولر لیڈر ہیں ان کی گرفتاری پر ایم کیو ایم کے کارکن مضطرب اور بے چین ہوئے۔ ایم کیو ایم کے ترجمان نصرت ندیم نے کارکنوں کو صبر اور تحمل کی تلقین کی مگر اس کے باوجود کارکنوں نے افسوسناک ردعمل کا اظہار کرکے توڑ پھوڑ، آتش زنی اور ہوائی فائرنگ کرکے کراچی میں خوف و ہراس پیدا کیا۔ قیادت اور جماعت کی اہلیت اور صلاحیت کا امتحان بحران میں ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم ایک منظم جماعت ہے مگر وہ اپنے کارکنوں کو نظم و ضبط میں نہ رکھ سکی۔ اہلیان کراچی نے ہمیشہ ایم کیو ایم کا ساتھ دیا ہے مگر اس کے کارکنوں نے کراچی کے عوام کے لیے ہی شدید مشکلات پیدا کیں ان کے راستے بند کردئیے۔ بسوں کو نذر آتش کیا، پٹرول پمپ اور بازار بند کرادئیے، امتحانات ملتوی ہوگئے۔ پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے باوجود شرپسند دہشت گردی میں مصروف رہے۔اپنے ہی ووٹروں کو اذیت کا نشانہ بنانا جمہوری سیاست نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے۔ ایم کیو ایم آزمائش سے گزر رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جماعت اس بحران کا مقابلہ کیسے کرتی ہے۔ایم کیو ایم کا دھرنا الطاف حسین کو قانون کی گرفت سے بچانے کا حربہ ہے جس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔