الطاف کی گرفتاری کیخلاف متحدہ کا لاہور میں احتجاج کامیاب نہ ہو سکا
لاہور (فرخ سعید خواجہ) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی گرفتاری کے خلاف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کی طرح احتجاج کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پنجاب میں کارکنان کی جانب سے کوئی بڑا دھرنا یا احتجاج اس لئے ممکن نہیں ہو سکا کہ پنجاب میں خود متحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت نے کسی بھی فرد کو مسلسل کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پنجاب میں متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کیلئے پچھلے کئی برسوں سے کراچی اور حیدر آباد سے مرکزی رابطہ کمیٹی کے ارکان بھجوائے جاتے رہے۔ جن ذمہ داروں کو لاہور بھجوایا گیا وہ یہاں کے ماحول اور مزاج سے ہی ناآشنا تھے چنانچہ کرنل (ر) طاہر مشہدی، ڈپٹی اقبال نعمان سہگل کو ناکام لوٹنا پڑا حالانکہ کرنل طاہر مشہدی اور نعمان سہگل خود کو پنجابی بتاتے تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے خانیوال سے رکن افتخار اکبر رندھاوا پہلے کامیاب لیڈر ثابت ہوئے اور انہوں نے نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ میڈیا میں بھی ذاتی تعلقات قائم کر کے متحدہ قومی موومنٹ کے پیغام کو پھیلایا۔ مینار پاکستان پر متحدہ قومی موومنٹ کے کامیاب پروگرام کے روح رواں افتخار اکبر رندھاوا ہی تھے۔ الیکشن 2008ء سے پہلے افتخار اکبر رندھاوا کو لاہور کی بجائے ملتان میں لگا دیا گیا اور لاہور مرکزی رابطہ کمیٹی کے رکن سیف یاد خان کے حوالے کر دیا گیا۔ دبلے پتلے خالصتاً اردو سپیکنگ سیف یاد خان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلسل دو سال کی جدوجہد کے بعد وہ لاہور کی سیاست اور میڈیا میں اہمیت اختیار کر گئے تب ان کو تبدیل کر کے 1988ء کے سرگرم رکن اور ایم این اے امین الحق کو متحدہ قومی موومنٹ میں واپسی کے بعد سیف یاد خان کی جگہ لاہور کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور سیف یاد خان کو نائن زیرو بلا لیا گیا۔ پنجاب بالخصوص لاہور کے کارکنوں کی بڑی کھیپ سیف یاد خان کے جانے کے بعد اسی طرح گھروں کو لوٹ گئی جیسا کہ افتخار اکبر رندھاوا کے تیار کردہ کارکنوں نے خود کو متحدہ قومی موومنٹ سے آہستہ آہستہ الگ کر لیا تھا۔ الطاف حسین کی گرفتاری کی اطلاع پاتے ہی متحدہ قومی موومنٹ کے پنجاب ہائوس میں نوائے وقت کی ٹیم پہنچی اور پہلے چند گھنٹوں میں پنجاب ہائوس میں اتار چڑھائو کو اپنی نگاہوں سے دیکھا۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ایک ڈیڑھ درجن کے قریب ہی کارکن اکٹھے ہوئے جنہوں نے پنجاب ہائوس کے لان میں دھرنا دینے کی تصویر بنوائی۔ ان کا کینال روڈ پر دھرنا دینے کا ارادہ اس لئے ناکام ہو گیا کہ ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، گرفتاری کے دن سے آج تک متحدہ قومی موومنٹ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں نہ کوئی بڑا احتجاج کر سکی ہے اور نہ ہی انہوں نے دھرنا دینے کا کوئی پروگرام بنایا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ برسہا برس کی ریاضت کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ پنجاب میں اس لئے قدم نہیں جما سکی کہ انہوں نے کراچی، حیدر آباد سے پنجاب میں قیادت مسلط کرنے کی کوشش کی جبکہ پنجاب سے قدآور سیاسی شخصیات قاضی غیاث الدین ٹوبہ ٹیک سنگھ والے، عزیز اعوان وزیر آباد والے، امان اللہ خان فیصل آباد والے جو کہ سابق صوبائی وزیر پیپلز پارٹی تھے متحدہ قومی موومنٹ کی اندرونی سیاست کا شکار ہو کر ایم کیو ایم کو چھوڑ گئے۔