• news

بھارت میں قید پاکستانیوں کی مکمل فہرست نہیں دی گئی‘ الطاف قانونی مدد مانگیں گے تو دینگے: دفتر خارجہ

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے قانونی معاونت نہیں مانگی، انکی وطن واپسی کیلئے برطانوی حکومت سے بات کرنے کا فیصلہ وزارت خارجہ نے نہیں کرنا۔ بھارت میں بڑی تعداد میں ایسے پاکستانی قیدی موجود  ہیں جن کی تفصیلات  فراہم کی گئی فہرست میں موجود نہیں ۔افغانستان سے پاکستانی چوکیوں پر حملوں کا مسئلہ افغان حکومت کے سامنے ا ٹھایا ہے۔ صدر ممنون حسین 9 اور 12 جون کو نائیجریا کا دورہ کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے  ہفتہ وار بریفنگ میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں   ہائی کمشنر عمران مرزا نے وزیراعظم کی ہدایت پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک  قونصلر رسائی کیلئے برطانوی حکام کو  درخواست دی تھی اور رسائی ملنے پر جمعرات کے روز ہسپتال میں ان سے ملاقات کی۔ یہ 20 منٹ کی ملاقات تھی۔ عمران مرزا نے وزیراعظم کی طرف سے  الطاف حسین کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور نیک خواہشات پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کوئی بھی پاکستانی برطانیہ اور پاکستان کی دوہری شہریت رکھ سکتا ہے۔ الطاف حسین نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیلئے درخواست جمع کروائی تھی۔انکو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ پاسپورٹ بنوانے کیلئے انہیں پاکستانی ہائی کمشن آنا ہوگا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے ان پر  لگائے گئے الزامات  کا علم نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی حکومت الطاف حسین کے حوالے سے برطانوی حکومت سے کیا مطالبہ کرتی ہے تو انہوں نے کہا وزیراعظم اور حکومتی وزراء اس پر بات کرچکے  ہیں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کا بھی اس حوالے سے موقف سامنے آچکا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ الطاف حسین کی واپسی کے حوالے سے فیصلہ وزارت خارجہ نے نہیں کرنا  حکومت جو بھی فیصلہ کریگی  ہم اس پر عملدرآمد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے پاکستانی قیدیوں کے حوالے سے فراہم کی گئی فہرست کے علاوہ بڑی تعداد میں پاکستانی قیدی بھارتی جیلوں میں قید ہیں جو ماہی گیروں کے علاوہ ہیں۔ یہ انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہے کئی پاکستانی اپنی سزا پوری کر چکے ہیں لیکن انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ ان کے مکمل اعداد و شمار نہیں ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی پاکستانی موجود ہو اسکی آزادی کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے یا دوسرے معاملات پر تبصرہ نہیں کروں گی جبکہ گوانتاناموبے اور بگرام جیل میں پاکستانی قیدیوں کی بات ہے تو ہم جلد از جلد ان کی رہائی چاہتے ہیں۔ شام کے انتخابات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد شام میں سیاسی استحکام اور امن قائم ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن