عدلیہ کی آزادی اس وقت سب سے مقدم ہے: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی)لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اس وقت سب سے مقدم ہے وہ چاہے مالیتی آزادی ہو یا انتظامی آزادی و ہ چھینی نہیں جاسکتی۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس عدالت عالیہ کے ججز اور ملازمین کیلئے سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ فاضل عدالت نے کیس کی سماعت 16جون تک ملتوی کرتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو فریق بنانے کا حکم دے دیا۔ جسٹس خالد محمود خان نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو محمد اکمل وغیرہ کی طرف سے محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیارکیا آئین کے تحت عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تین ستون ہیں۔ آئین کے دیباچے آرٹیکل 175، 203 اور 208کے تحت عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے۔ مالیاتی آزادی کا بھی عدلیہ کی آزادی سے تعلق ہے اسی طرح عدلیہ کے ملازمین بمعہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں کا انتظام ، انتظامیہ کے زیر اثر ہونے سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہورہی ہے عدلیہ کے ملازمین اور ججز کو سرکاری رہائشوں کی الاٹمنٹ کیلئے انتظامیہ کی مرہون منت نہیں ہونا چاہئے۔2008 میں ہائی کورٹ کے ملازمین کو اپ گریڈ کیا گیا مگر سرکاری رہائش گاہوں کی پالیسی میں ا پ گریڈیشن نہیں کی گئی ۔2010 میں یہ درخواست دائر کی گئی ہے اور حکومت وقت عدلیہ کی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری رہائشوں کی الاٹمنٹ اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔ عدلیہ کے ججز اور ملازمین کی سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کا اختیار عدلیہ کے پاس ہی ہونا چاہیے ان کی مرمت اور تزئین کا کام متعلقہ ادارے کریں۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے اس میں رجسٹرار لاہو ر ہائی کورٹ کو فریق نہیں بنایا گیا پہلے اسے فریق بنائیں۔ عدالت رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کا موقف سننا چاہتی ہے۔