• news

چھٹی کا دن… اور ہمیشہ؟

چھٹی والے دن کے لئے مرشدی مجید نظامی نے کالم لکھنے کی ہدایت کر دی ہے۔ چھٹی والے دن اور تو کوئی کام کرنے کو نہیں ہوتا تو لوگ کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیتے ہوں گے۔ میں نے یہ طے کیا ہے کہ چھٹی والے دن کے لئے سیاسی کالم نہیں لکھوں گا مگر سیاست آ ہی جاتی ہے۔ بے چارے سیاستدان چھٹی والے دن کیا کرتے ہوں گے۔ وہ بھی چھٹی مناتے ہیں۔ چھٹی منانا کچھ اور ہوتا ہے۔ چھٹی گزارنا اور ہوتا ہے۔ اکثر لوگ چھٹی بھی اس طرح گزارتے ہیں جس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ گزر جانے والی چیز کی کیا حیثیت ہے۔ حکومت بھی گزر ہی جاتی ہے مگر لوگ چھٹی اور حکومت اور زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک عجیب حقیقت اور بھی ہے۔ زندگی گزر گئی ہم سے پوچھے بغیر۔ جن سے پوچھ کر گزری انہوں نے کیا اسے روک لیا۔ ہمارا انتظار کرو۔ وہ انتظار نہیں کرتی۔ اعتبار بھی نہیں کرتی۔ ہم ایسی چیز نہیں کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ زندگی جس کا انتظار کرے۔ جس کا اعتبار کرے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ موت کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ زندگی کیا ہے؟ زندگی جتنی بامعنی ہے اتنی ہی بے معنی ہے۔ کچھ ہے تو وہ بے معنویت اور بامعنویت کے امتزاج میں ہے۔ اس مزاج کا آدمی کبھی کبھی دنیا میں آتا ہے۔
برطانیہ کے عظیم وزیراعظم چرچل نے کہا تھا کہ اگر حضرت عمرؓ دس سال اور زندہ رہتے تو دنیا میں صرف اسلام ہوتا۔ اسلام جیسا حضرت عمرؓ کے ذہن و دل میں تھا آج کے مولوی کا اسلام نہیں جو اپنی ایک جیب میں روپے اور دوسری جیب میں فتوے لئے پھرتا ہے۔ یہ جو پولیس کا محکمہ ہے اس کی بنیاد حضرت عمرؓ نے رکھی تھی تو آج پاکستان کی پولیس کا کوئی موازنہ ان کی پولیس سے کیا جا سکتا ہے۔ ؟
تب چاروں طرف اسلامی لشکر جاتے تھے تو حضرت عمرؓ نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ ایک عورت اپنے آدمی کے انتظار میں کتنے دن گزار سکتی ہے۔ انہوں نے فرمایا تین مہینے۔ تو پھر یہ لازمی ہو گیا کہ ہر تین مہینے کے بعد ہر سپاہی اپنے گھر چھٹی پر تین دن کے لئے آئے گا۔ ایک دفعہ ایک سپاہی سیدنا عمرؓ کے پاس اپنے گھر والی کے لئے شکایت لے کر گیا تو وہ اس سپاہی پر خفا ہوئے کہ تم اپنے گھر میں اطلاع دے کے کیوں نہیں گئے تھے۔ ڈنمارک میں انسانی حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے جو قوانین ہیں انہیں عمرلاز کہا جاتا ہے۔
یہ سب باتیں دل والے اور لفظ و خیال کو روحانی کمال دینے والے کئی کتابوں کے مصنف صوفی عبداللہ بھٹی کے ساتھ ہوئیں۔ ان کے ساتھ عزیزم موید بھی تھا جو میرے بیٹے سلمان کا دوست ہے۔ سلمان جوانی میں ان دیکھی حقیقتوں کا متلاشی ہے اور نامعلوم دنیائوں کا مسافر بننا چاہتا ہے۔ کسی ہمسفر کی تلاش میں ہے۔ وہ قبلہ ریاض صاحب اور عبداللہ بھٹی کے ساتھ پیار رکھتا ہے۔ سرگودھا میں حاجی جعفر علی شاہ ہیں خاموشی اور تنہائی کے دریا میں ڈوبے یعنی اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے کم کم بولتے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کس کے لئے کتنی پسندیدگی رکھتے ہیں۔ معلوم ہو جاتا ہے کہ سچا درویش بادشاہ ہوتا ہے۔ بے نیاز ہوتا ہے۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی مگر وہ لاپروا نہیں ہوتا۔
مجھے ایک خاتون کا خیال آتا ہے۔ دوسروں سے الگ تھلگ۔ اسے وہ بھی نہیں جانتے جو اسے ملتے رہتے ہیں۔ شاید گلفام نقوی کو کچھ پتہ ہو کہ ناز فاطمہ کون ہے، کیا ہے؟ وہ شعر و ادب کی دنیا سے بھی وابستہ ہے۔ وابستگی وارفتگی کے بغیر میسر نہیں آتی۔ وارفتہ پن کیا ہوتا ہے۔ اس کا بچپن کے بانکپن سے بھی کوئی تعلق ہے؟ برادرم اظہر جاوید مرحوم کے رسالے ’’تخلیق‘‘ کے تازہ شمارے میں گلفام کی تازہ غزل دیکھی۔ ’’تخلیق‘‘ کو جاری رکھنے کے لئے ہم سونان اظہر جاوید کے شکر گزار ہیں۔ گلفام کا ایک شعر اچھا لگا تو کہا اس نے واقعی ناز فاطمہ کو دیکھا ہے۔
دیار جاں میں کبھی آ اتار کر آنکھیں
ادھر بھی دیکھ ذرا مجھ سے چار کر آنکھیں
ناز فاطمہ نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’ہمیشہ‘‘ رکھا ہے۔ ہمیشگی تو کسی چیز کو حاصل نہیں۔ اگر ہے تو بھی وہ نہیں بتائے گی۔ وہ خود اسی ’’نامعلوم‘‘ کے تعاقب میں جاگتی رہتی ہے۔ شاید یہی ہمیشگی ہے؟ مگر پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمیشگی کیا ہے؟ سوال ہمیشہ جواب سے بڑا ہوتا ہے۔ جواب سوال کے اندر ہوتا ہے مگر کسی کا دھیان اس طرف نہیں جاتا۔ آخری سوال میں تو سب جواب چھپا ہوتا ہے۔ آخری سوال تک ہمیں جانے ہی نہیں دیا جاتا۔
پروین شاکر یاد آتی ہے۔ وہ جو نظر آتی تھی اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ربط ضبط اس کا تھا۔ اس کے پہلے شعری مجموعے کا نام تھا ’’خوشبو‘‘۔ وہ خود خوشبو تھی جو محسوس تو ہوتی ہے نظر نہیں آتی۔ تو طے ہوا کہ جو کچھ نظر نہیں آتا وہی اصل ہے۔ میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا اے خدا مجھے چیزوں کو دکھا جیسی کہ وہ اصل میں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل میں کچھ اور شے ہوتی ہے۔ اس کی تلاش میں جو گم ہوا پھر اس کا سراغ کسی کو نہ ملا۔
ایک شاعرہ ہے جس کا نام مجھے بھول گیا ہے۔ اس کے شعری مجموعے کا نام بھی پسند آیا تھا۔ ’’وعدہ‘‘۔ منیز نیازی یاد آ گیا ہے۔ وہ میرے قبیلے کا سردار ہے۔
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
مسافرت اور ہمسفری کے امتزاج سے اپنا مزاج بنانے والے بے نیاز ادبی شخصیت کے مالک شمار میں  آنے والے شاعر اختر شمار کا ایک شعر سنئے۔ اس کے کالم دیر تک اور دور تک محسوس کئے جاتے ہیں مگر وہ دنیا داری نہیں جانتا۔ اس کے شعری مجموعے کا نام ’’عاجزانہ‘‘ ہے۔
آخری وقت میں یہ بھید کھلا ہے ہم پر
ہم کسی نقل مکانی کے لئے زندہ ہیں

ای پیپر-دی نیشن