• news

امیر فقیر میں خلا دور نہ ہوا تو قیامت ہو گی

عمران پاگل ہے کہ نہیں ہے مگر دوسروں کو پاگل کر کے رکھ دے گا۔ کچھ کرنے کچھ کر دکھانے کے لئے نیم پاگل ہونا تو بہت ضروری ہے۔ نیم پاگل مجھے اچھے لگتے ہیں۔ معرکہ آرائی ابنارمل آدمی ہی کر سکتے ہیں۔ نارمل آدمی  تو صرف عمر گزارنے آتے ہیں۔ برادرم غالب کہتا ہے کہ نیم پاگل نیم حکیم نہیں ہوتے کہ خطرہ جاں بن جائیں۔ غالب جانتا ہے کہ عمران کی جان کون ہے۔ جان جاناں۔ بہرحال یہ کیوں ہے کہ نواز شریف بھی خدا کے واسطے دینے پر آ  گئے ہیں۔ خدا کے واسطے ہمیں چلنے دو۔ ہماری حکومت کو یعنی جمہوریت کو چلنے دو۔ کبھی نہ کبھی تمہاری باری بھی آ جائے گی۔ میاں صاحب کو عمران کی یہ بات یاد ہے۔ میاں صاحب جان دیو ساڈی واری آن دیو۔ بھائی فاروق انصاری کہنے لگا ہارون الرشید کی طرح غالب نے کالم لکھا ہے۔ میں نے کہا کہ ہارون تو عمران کا قصیدہ نگار تھا۔ غالب نے اپنے انداز سے بات کی ہے۔ اس کا یہ جملہ عمران کی سیاست کا آئینہ اور آئینہ دار ہے۔ عمران کی سیاست اتار چڑھائو کا شکار رہتی ہے۔ ’’کبھی میرا ہیرو ہوتا ہے اور کبھی زیرو ہوتا ہے۔‘‘ اس میں میانوالی کے پٹھانوں والی حیا ہے۔ شاید غالب نے بھی میانوالی کے پٹھان دیکھے نہیں ہیں۔ وہاں کی عورتیں ایک گیت گاتی ہیں۔ ’’میکے ماواں نال تے بھار بھراواں نال۔‘‘ وہ جو اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکا۔ ساری دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو بھی وہ سر پر تاج سجا کے بھی بادشاہ نہیں بن سکتا۔ شہزادیاں تو اب بھی اسے میسر ہیں۔ نجانے کیوں شہزادہ میرے لئے بادشاہ سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔
ن لیگ کے شہزادے اس سے اتنے بے قرار کیوں ہیں۔ وہ پرویز رشید کو روک کیوں نہیں لیتے۔ کہتے ہیں کہ دھاندلی کے بخار کی وجوہات عمران ہی جانتے ہیں تو پھر بخار تو پرویز رشید کو چڑھا ہوا ہے۔ ان کو پنجابی کی ایک بولی سنائوں۔ انہیں گارڈن کالج کا زمانہ یاد آ جائے گا۔ ’’تینوں تاپ چڑھے میں ہونگاں‘‘۔ بخار کی حالت میں بیان بازی اچھی نہیں ہوتی۔ بخار کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ اقتدار کا بخار بھی بن جاتا ہے۔ ان کے جیسے لوگ وزیر شذیر بن جاتے ہیں اور آلو بخارے چوستے رہتے ہیں۔ ان کے بیان کے ساتھ یہ خبر لگی ہوئی ہے۔ بدترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری۔ مظاہرے، متاثرین منگلا ڈیم سراپا احتجاج۔ عابد شیر علی کہاں ہے۔ اربوں کے بل جو سندھ اسمبلی گورنر ہائوس وغیرہ کو بھجوائے گئے کیا ایک پیسہ بھی وصول ہوا۔ خواجہ آصف خوش قسمت ہیں۔ بجلی کی بات ہو تو وہ وزیر دفاع ہوتے ہیں اور دفاع کی بات ہو تو عابد شیر علی سے ملنے چلے جاتے ہیں۔
الیکشن سے پہلے بھی عمران نے ن لیگ کو چکرا کر رکھ دیا۔ اسی لئے وہ جیت گئی۔ عمران مسلم لیگ ن کے لئے ایک نعمت بن گیا ہے۔ سیالکوٹ میں بڑا جلسہ ہوا مگر کیا آئندہ یہاں سے خواجہ آصف نہیں جیتے گا؟ وہ ہارتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی فردوس عاشق اعوان جیت جاتی ہے۔ اس بار وہ ہار گئی ہے اور خواجہ صاحب جیت گئے ہیں۔ وزیر بجلی  تو  فردوس بھی بن گئی تھیں۔ ایک دفعہ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی نے انہیں کابینہ سے نکالنا چاہا تھا مگر وہ ان کے ایک آنسو کے سامنے نہ ٹھہر سکے تھے۔ سنا ہے آنسو ان کی کمزوری ہے اور آنسہ بھی۔ ان کی بڑی مرضی تھی کہ آنسہ ماروی میمن ان کی وزیر بن جائیں۔ اسے چودھری پرویز الٰہی وزیر نہ بنا سکے تھے اور نہ نواز شریف ابھی تک کامیاب ہوئے ہیں۔ صدر مشرف نے بھی انہیں وزیر نہ بنایا تھا مگر وہ ان کے لندن چلے جانے پر دھاڑیں مار مار کے روتی رہی تھیں۔ اب تو اس طرف شیر دھاڑ رہا ہے۔ وہ نواز شریف سے اتنا تو پوچھیں کہ مریم نواز کی قرضہ سکیم والی تقریب میں وہ عمران خان کو خدا کے واسطے کیوں دیتے رہے۔ اور پھر سٹیج پر ہر بار ساتھ اسحاق ڈار کو کیوں بٹھا لیتے ہیں۔ قرضہ سکیم کو سیاست سے الگ تھلگ ایک انداز دینے کی ضرورت ہے۔ مریم نواز اور ماروی میمن کو فری ہینڈ ملے تو یہ سکیم فرزانہ راجہ کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح سود مند ہو سکتی ہے۔ فرزانہ راجہ نے ایک بار یہ بتا کے مجھے رلا دیا کہ دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے ہزار روپے کا نوٹ دیکھا ہوا نہ تھا۔ ان عورتوں کے لئے ہزار روپے کی امداد بھی کتنی بڑی معاونت تھی۔ مریم نواز تو نوجوانوں کے لئے دس لاکھ کے قرضے بھی فراہم کر رہی ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ بھی عمران کا خوف ہے کہ جوانوں کے لئے سکیمیں آغاز ہو گئی ہیں۔ پرویز رشید عمران کے خلاف کوئی ڈھنگ کی بات کرے
ہم کو دعائیں دو تمہیں دلبر بنا دیا
عمران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مک مکا کی بات کرتا ہے تو مسلم لیگ ق کہاں سے نکل آئی تھی۔ اب پھر ق لیگ والے سرگرم ہوتے ہیں بلکہ گرم ہوتے ہیں۔ گرما گرم۔
عمران کی باری کس سے لگے گی۔ علامہ طاہرالقادری کی طرف نگاہ جاتی ہے۔ دونوں کو کوئی اشیر باد حاصل ہے؟ حیرت ہے کہ نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب صدر جنرل ضیا نے بنایا۔ چودھری پرویز الٰہی کو صدر جنرل مشرف نے، تو فرق کیا ہوا۔
البتہ شہباز شریف اپنے زور بازو پروزیراعلیٰ بنے  ہیں۔ وہ باتیں بھی ایسی کرتے ہیں کہ کوئی حکمران نہیں کر سکتا۔ حکمرانی کے علاوہ بھی کوئی کہانی شہباز شریف کے پاس ہوتی ہے۔ اس کہانی کے عنوان بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی کل وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ آئے۔ پاسبان نظریہ پاکستان بے  مثال ایڈیٹر مجید نظامی کی قیادت میں اس کی گرانقدر خدمات کی تعریف کی۔ ایوان اقبال کے بعد ایوان قائداعظم کی تعمیر کے لئے خراج تحسین پیش کیا۔ پھر ایک خطیر رقم کی گرانٹ دی۔ قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کے پیغام کو عام کرنے کی روایت کو بھی سراہا۔ اس تقریب میں صدر رفیق تارڑ چیف جسٹس میاں محبوب کرنل جمشید ترین بھی تھے۔ ترین صاحب وھیل چیئر پر تازہ دم ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر عزم و یقین کے کئی چراغ دل میں جلنے لگتے ہیں۔ جنرل ذوالفقار خان واپڈا کے چیئرمین تھے اور تب کوئی لوڈ شیڈنگ نہ تھی۔ ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ میاں فاروق الطاف اور شاہد رشید بھی خطاب کرنے والوں میں تھے۔ نجانے وہاں رانا مشہود کیا کرنے آ گئے تھے؟ اوریا مقبول جان بھی تھے۔ برادرم شعیب بن عزیز اور عزیزم عبداللہ سنبل، عبداللہ سنبل گورنمنٹ کالج کے ساتھی ہیں۔ وفا حیا والے افسر شعیب اور عبداللہ ایسے افسران ہیں کہ آنکھ بند کر کے ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ مجید نظامی نے بجا فرمایا کہ نئی نسل کو دوقومی نظریہ سے آگاہی کا فریضہ تندہی اور ذمہ داری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے لئے شاہد رشید اور ان کی ٹیم مجید نظامی کی قیادت میں جو کچھ کر رہی ہے وہ اس پر  مبارکباد کے مستحق ہیں۔ شہباز شریف نے برملا کہا۔
امیر اور فقیر کے درمیان خلا دور نہ کیا گیا تو ملک کے لئے خطرناک ہو گا۔ ایک تو یہ بات کہ امیر کے مقابلے میں غریب نہیں ہوتا فقیر ہوتا ہے۔ اور فقر ایک طاقت ہے۔ ان کے درمیان جو تفاوت بڑھتا جاتا ہے اسے روکنا ہو گا۔ یہ امیروں کے لئے زیادہ ضروری ہے۔ نقصان امیروں کا ہو گا۔ فقیر دل کا امیر ہو تو بات ہی بدل جائے۔
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں میں ہوں امیر
شہباز شریف نے چونکا دینے والی بات یہ بھی کی کہ قیام پاکستان کا مقصد سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنا ہے۔ شاید انہیں یاد ہو کہ جامعہ نعیمیہ  کے علامہ راغب نعیمی کی دعوت پر شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی برسی پر میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ بے شک غریبی ختم نہ کرو۔ تھوڑی سی امیری ختم کر دو۔ خطرہ ٹل جائے گا۔ غریبی اور امیری بلکہ فقیری اور امیری تو ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گی۔ مگر ایسا ماحول ہو کہ امیر کی طرف سے امیری نہ لگے اور فقیر فقیری میں مست نہ ہو۔ غریب ہو مگر کوئی اسے غریب نہ کہے تو کمال ہو جائے۔ سلام ہو آقا و مولا رحمت اللعالمینؐ پر کہ انہوں نے فرمایا۔ میں کہوں تو احد اور بدر کے پہاڑ سونے کے ہو جائیں مگر مجھے فقیری عزیز ہے۔
سلام اسؐ پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

ای پیپر-دی نیشن