• news

حکومت عام آدمی کے حالات بہتر بنانے میں غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے  آٹے اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں غیرقانونی اضافوں کے خلاف جماعت اسلامی کے سیکر ٹری جنرل لیاقت بلوچ کی درخواست پر لئے گئے سوئوموٹو کیس کی سماعت کے دوران  عدالت نے معاملے سے متعلق تمام متعلقہ اداروں اور  وزارتوں کو  لوگوں کو بنیادی اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی یقینی  بنانے اور  کئے جانے والے اقدامات کی پراگرس رپورٹ10روز میں طلب کرلی ہے۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے ایک طرف اربوں روپے بانٹے جارہے ہیں مگر دوسری طرف عام لوگوں کو بنیادی  اشیائے ضروریہ بھی دستیاب نہیں، ورکرز ویلفئر فنڈ اور ای او بی آئی نے اربوں کھربوں روپے اکٹھے کر رکھے ہیں مگر ان پیسوں سے ورکرز کیلئے سستے مکانات بنانے کی بجائے بڑی بڑی پجیرو اور لگژری گاڑیاںخریدی جاتی ہیں، افسر بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں عیش وعشرت کر تے ہیں حالانکہ یہ رقم  اتنی ہے کہ اس سے ویلفیئر کے متعدد کام اور کئی شہر بسائے جا سکتے ہیں سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے، عملی طور پر یہاں کچھ کام نظر نہیں آتا۔ حکومت پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب سے  صوبہ خیبر پی کے کوگندم کی نقل و حرکت پر عائد پابندی اٹھالی گئی ہے، اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری وزارت فوڈ سکیورٹی سیرت اصغر نے عدالت کو بتایا کہ انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کی امداد کی جارہی ہے  اس پروگرام کے بہتر نظام کار کی وجہ سے اس میں کرپشن کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ انکم سپورٹ پروگرام کی امداد عام آدمی کی بنیادی ضروریات کا جواب نہیں، اس امداد سے غربت کم نہیں ہو سکتی، یہ خوراک کی سستے داموں فراہمی کا مسئلہ ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل عتیق شاہ کہاکہ بھارت میں اس حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ بھارت میں ہم سے زیادہ حالات خراب ہیں ہمارے ہاں تو پھر بھی کچھ بہتری ہے۔ خیبر پی کے کی جانب سے ایڈیشنل ایدووکیٹ جنرل زاہد قریشی پیش ہوئے تو عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم ترین کیس ہے وہ خود پیش کیوں نہیں ہوئے۔ زاہد قریشی نے پنجاب کی جانب سے ان کے صوبہ کو گندم کی سپلائی پر عائد پابندی کا ذکر کیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا نے عدالت کو حکومت پنجاب کی جانب سے بتایا کہ یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے، گندم کی نقل و حمل اب ہر صوبے کو جاری ہے۔ سیرت اصغر نے بتایا کہ خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے5.6ملین افراد کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی کیلئے بی آئی ایس پی پروگرام کے تحت  فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں، جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ حکومت کو غریب طبقے کو سستی اشیاء فراہمی کیلئے خصوصی انتظامات کرنا ہونگے اس معاملے میں اداروں کا آپس میں ربط ضروری ہے ۔ایک وکیل نے کہاکہ خط غربت کے نیچے زندگی گذارنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بتائی جارہی ہے اس حوالے سے عالمی رپورٹس موجود ہیں جس پر جسٹس گلزار نے کہاکہ ایسی رپورٹس تیار کرنے والوں کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ان کی این جی اوز چلتی ہیں۔ ہماری وزارت کے لوگ خود مختلف علاقوں کا دورہ کریں اور اپنی رپورٹس تیار کریں۔ آجکل آرٹیکل 38کا بڑا ذکر کیا جارہا ہے مگر حکومت میں بیٹھے لوگوں کو اس آرٹیکل کے بارے میں مناسب طور پر معلوم ہی نہیں ہوتا وہ اس پر عمل کس  طرح کرائیں گے۔ حکومت عام آدمی کے حالات بہتر بنانے میںبڑی حد تک غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ زکٰوۃ کی رقم سے پجارو گاڑیاں خریدی جا رہی ہے، ورکرز ویلفیئر فنڈ سے شہروں کے شہر بسائے  جاسکتے ہیں لیکن ان فنڈز سے افسر بیرون ملک جاتے ہیں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ ای اوبی آئی فنڈ کے اربوں،کھربوں روپے سے غریب طبقات  کے لئے بہت سی کالونیاں بنائی جا سکتی ہیں لیکن عام آدمی کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا لگتا ہے کہ حکومت غافل ہے۔ شہریوں کی بنیادی  ضروریات کے حوالے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مثال عدالت کے سوال کا درست جواب نہیں۔غریب طبقات کو خوراک کی فراہمی کے لئے حکومت کو الگ سے انتظامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 38 کا چرچہ کیا جاتا ہے لیکن غفلت کی حد ہے بے نظیر انکم سپورٹ سے غربت کم نہیں ہو سکتی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے اربوں ،کھربوں روپے لوگوں میں بانٹے گئے لیکن بازاروں میں سستی اشیا میسر نہیں ہیں۔ سیرت اصغر نے عدالت کو بتایا کہ 226ملین روپے فوڈ سپورٹ پروگرام کے  ذریعے بانٹے گئے ہیں اس عمل میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے ملک کے غریب طبقات کو خوراک کی فراہمی کے حوالے سے کئے گئے اقدامات بارے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دس روز کے لئے ملتوی کر دی۔ آن لائن کے مطابق آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے آٹے کی قیمتوں  میں اضافے کے حوالے سے وفاق اور صوبوں  کی رپورٹس پر عدم  اعتماد کا اظہارکرتے  ہوئے انہیں ہدایت  کی کہ عوام کو بنیادی  ضروریات زندگی  کی فراہمی کیلئے موثر اقدامات بروئے کار لائے جائیں ، وفاق ،صوبائی حکومتیں  اور دیگر ادارے  10 روز میں عدالتی حکم پر عملدرآمد بارے رپورٹس پیش کریں۔ جسٹس گلزار احمد  نے کہا کہ  سرکار  کے پیسے سے بڑی بڑی  گاڑیاں  خریدی جارہی ہیں  ورکرز فنڈز  اور ای او بی  آئی میں پڑے اربوں  کھربوں  روپے  سے نئے شہر بسائے جاسکتے  ہیں  مگر  آج تک ورکروں  کے لئے کوئی کالونی نہیں بنائی گئی ،  عوام کے پیسوں سے حکام  بالا عالمی کانفرنسوں میں شرکت  کرتے ہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہتے ہیں  عوام کا یہ حال ہے کہ  ان کو سستا آٹا  تک دستیاب نہیں،  اربوں روپے  لوگوں میں بغیر  کسی مقصد کے  بانٹے  جارہے ہیں  مگر غریبوں  کو سستی اشیا نہیں ملتیں، سرکاری افسروں یہاں تک  کہ حکومتوں کو  آئین  کے بارے میں  علم ہی نہیں  ہوتا  مگر ٹی وی پر بیٹھ  کر بحث  کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کو اشیاء ضروریہ کی فراہمی  کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے  اس حوالے سے الگ میکنزم  اختیار کرنا ہوگا۔ ایڈیشنل  ایڈووکیٹ جنرل  کے پی کے  زاہد قریشی  پیش ہوئے تو عدالت  نے کہا کہ  ایڈووکیٹ جنرل کہاں ہیں یہ کوئی عام کیس نہیں،  اہم مقدمہ ہے، اگلی  سماعت پر ان کو پیش  ہونے کے لئے  کہیں۔ دوران سماعت  توفیق آصف نے  عدالت  کو بتایا کہ ابھی تک لوگوں کو سستے   آٹے کی فراہمی ممکن نہیں  ہوسکی  اس پر عدالت نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے۔ عدالت نے کہا کہ  رپورٹس اور اقدامات ناکافی ہیں مزید اقدامات کرکے دس روز میں  رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن