خادم اعلیٰ اور الطاف حسین
یادش بخیر گزرے برسوں کے یہی دن تھے جب خادم اعلیٰ نے مینار پاکستان کے سائے تلے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔ وہ اپنے رفقاءکے ہمراہ دستی پنکھوں سمیت تصویریں بنواتے اور بجلی کی کمی اور گرمی کی زیادتی کو بنیاد بنا کے زرداری حکومت کیخلاف دل کی خوب بھڑاس نکالتے گویا زرداری نے بجلی کا مین سوئچ آف کر رکھا ہو، حالانکہ بجلی کی کمی کا مسئلہ قدرے پیچیدہ تر ہے، اصلاً جب تک متعلقہ ادارے کی تشکیل نو نہیں کی جاتی اور اسکے ”مضمرات“ پر غور نہیں کیا جاتا معاملہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لائن لاسز اور بجلی چوری کو کنٹرول کیا جائے اور پانی کے ذرائع بڑھانے کا بندوبست ہو تاکہ بجلی سستی اور وافر بنائی جا سکے اب جہاں تک پانی کے ذرائع کا تعلق ہے ان پر بھارت قبضہ جما چکا ہے اور اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہماری حکومتیں اس معاملے میں شدید ترین غفلت کا شکار رہی ہیں حالانکہ آبی ماہرین کا ماننا ہے کہ دنیا میں اگر آئندہ کوئی عالمگیر جنگ ہوئی تو پانی ہی کے مسئلہ پر ہو گی اور ایک ہم ہیں کہ اس سچ سے آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں۔ ”مور اوور“ کے طور پر ملک کے دیگر قومی اداروں کی طرح بجلی پیدا کرنیوالے ادارے میں بھی ”کرپٹ مافیا“ کا راج ہے ج اپنے کالے کرتوتوں پر ”سفید چادریں“ ڈال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ سر پر کفن باندھ کر اپنے ”فرائض“ ادا کرتے ہیں۔ دریں اثنا حیرت انگیز امر یہ ہے کہ خادم اعلیٰ نے برادر بزرگ کی حکومت میں مذکورہ احتجاجی کیمپ اکھاڑ ڈالا ہے اور اس شدید گرمی میں نہ صرف خود مصروف کار ہیں بلکہ ”لُور لُور“ پھر بھی رہے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ”خادم اعلیٰ“ کی ترکیب بھی خاصی عجیب ہے یعنی خادم لیکن اعلیٰ درجے کا۔ گویا خادمین کے بھی درجات مرتب کئے جا چکے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خادم ادنیٰ کی ترکیب استعمال کی جاتی اور اگر زیادہ عجز و انکساری درکار تھی تو ادنیٰ کے ساتھ ترین کا لفظ بھی لگایا جا سکتا تھا۔ ویسے یہ سمجھ سے بالاتر بات ہے کہ ”خادمین“ کی یہ کون سی قسم ہے جو اعلیٰ ترین پروٹوکول کی حامل ہے۔ یہ ”خادمین“ جہاں سے گزرتے ہیں اور جہاں پر ٹھہرتے ہیں، سڑکیں راستے اور زندگی کا رواں دواں سلسلہ بند کروا دیتے ہیں۔ میں حکمرانوں کی آبائی بستی میں رہتا ہوں اور ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ اس پوری بستی کی حرکت پذیری انکے ”آہنی ہاتھوں“ میں ہوتی ہے اور تو اور انکے بچے اور ملازمین تک جب چاہیں چلتے پھرتے کاروان حیات کو تلپٹ کرکے رکھ دیں۔ عوام کی زندگی کو سہل بنانے کی بجائے اجیرن کر دینے کی صلاحیت اور اختیار صرف اور صرف تیسری دنیا کے حکمرانوں ہی کے پاس ہے۔ ملکی سیاست کے دیگر محاذوں پر نظر ڈالیں تو اندرونی محاذ پر عمران خان اور شیخ رشید مورچہ بند دکھائی دیتے ہیں تو بیرونی محاذ چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے گرم کر رکھا ہے۔ حکومت کی چھٹی کروانے میں جس قدر یہ لوگ سرگرم ہیں تقریباً اتنی ہی سرگرمی اس معاملے میں خود حکومتی حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اپوزیشن حکومت کی ”پوری چھٹی“ کروانا چاہتی ہے جبکہ خود حکومت ”آدھی چھٹی“ کے موڈ میں ہے۔ ویسے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ”شریف برادرز“ کی جب بھی حکومت بنتی ہے سال چھ ماہ کے اندر اندر ان کیخلاف محاذ آرائی شروع کر دی یا کروا دی جاتی ہے۔ باقی رہی سہی کسر وہ خود نکال دیتے ہیں یوں گمان ہوتا ہے کہ انہیں حکومت میں آنے کی اس قدر جلدی نہیں ہوتی جس قدر اس سے فراغت پانے کی ہوتی ہے۔ آخر میں اس حقیقت سے آنکھیں ملائے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ الطاف حسین کروڑوں افراد کے محبوب نمائندہ رہنما ہیں۔ انکی لندن میں گرفتاری اور ضمانت پر رہائی کے موقع پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کا جوش و خروش اور ولولہ نہ صرف دیدنی تھا بلکہ قابل فہم بھی۔ ٹیل پیس۔ عمران خان جس دبنگ اور یقینی لہجے میں حکومت، عدلیہ اور الیکشن کی ”ساکھ“ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے تاکہ سچ اور جھوٹ کو علیحدہ علیحدہ کیا جا سکے۔ یہ عمل اعلیٰ عدلیہ کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔