اختر رسول: چشمہ ایڑیاں رگڑنے سے نکلے گا
حافظ عمران
اختر رسول ایک سینئر سیاستدان اور تجربہ کار ہاکی منتظم ہیں۔ موصوف کا تعلق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ 2013ءکے عام انتخابات میں ناکام رہے اس کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے۔ پی ایچ ایف کے صدر کا عہدہ ان کے لئے نیا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کے آخری دور حکومت میں بھی وہ اس عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ قاسم ضیاءاور آصف باجوہ کے ساتھ بھی گزشتہ چند برسوں میں وہ مختلف اہم عہدوں پر کام کرتے رہے۔ مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ ہر دور میں ہاکی کے معاملات سے جُڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی کھیل ہی ان کی سب سے اہم اور معتبر پہچان ہے۔
اس مرتبہ جب چودھری اختر رسول نے پاکستان ہاکی کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو انہیں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ قومی کھیل کا گرتا ہُوا معیار، ہاکی کھلاڑیوں کے لئے ملازمتوں کا مسئلہ، نچلی سطح پر بنیادی ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر، بین الاقوامی سطح پر گرتی ہوئی ساکھ، بڑے ٹورنامنٹس میں قومی ٹیم کی مشکوک شرکت، چار مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ سے اخراج، قومی سطح پر اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل کوچز کی عدم دستیابی، سابق کھلاڑیوں کی گروہ بندی، یہ وہ مسائل ہیں جو اختر رسول ورثے میں لیکر چل رہے ہیں۔ ان سب مسائل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ہاکی فیڈریشن کا خالی خزانہ ہے جس میں پیسے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک وقت میں تو ہاکی فیڈریشن کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیاتھا۔ پنجاب حکومت کی مہربانی سے کچھ رقم ملی لیکن اس سے زیادہ وقت نہیں گزارا جا سکتا اور نہ ہی پورے ملک کی ہاکی کو چلایا جا سکتا ہے۔ اب ہاکی کے لئے فنڈز کا مسئلہ حل کرنے کیلئے چودھری اختر رسول نے امیدیں لگائیں، اپنے آئیڈیل اور محبوب سیاستدان وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے، صدر پی ایچ ایف پُرامید تھے کہ یقیناً ان کی درخواست پر حکومت بجٹ 2014-15ءمیں قومی کھیل کے لئے پچاس ساٹھ کروڑ مختص کر دے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے وفاقی دارالحکومت کے بہت چکر لگائے، سینکڑوں فون وزیراعظم ہاﺅس اور بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے سیکرٹری، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کے دفتر کئے ہوں گے۔ بجٹ کے اعلان کے دو روز قبل چودھری اختر رسول وقت نیوز کے پروگرام ”گیم بیٹ“ میں بھی شریک تھے اور خاصے پُرامید تھے کہ ایک بھرپور پلان بنا کر وزیراعظم کے دفتر فائل بھجوا دی گئی ہے اور سمجھیں کام ہونے والا ہے۔ تاہم بجٹ کے اعلان نے اختر رسول کی امیدوں پر ناصرف پانی پھیر دیا بلکہ ان کے مسائل میں بے پناہ اضافہ بھی کر دیا۔ حکومت نے قومی کھیل کی بحالی کے ایجنڈے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی فائل بین الصوبائی رابطہ کی وزارت سفارشات پر ”نو لفٹ“ لکھ کر داخل دفتر کر دیا ہے۔ یوں اختر رسول کو سب سے بڑا دھچکا ان کے محبوب قائد کی طرف لگا ہے۔ ابتدائی غم تو اپنوں کی طرف سے ہی ملا ہے، وہ جن کو پھول سمجھ رہے تھے وہاں سے اب تک کانٹے ہی ملے ہیں۔ بجٹ 2014-15 تو قومی کھیل کی فیڈریشن کے عہدیداروں کے لئے کانٹوں کا گلدستہ ثابت ہوا ہے جس میں ان کے لئے پھول تو دور کی بات، پھولوں کی خوشبو بھی حصے میں نہیں آئی۔
اختر رسول سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کھیل دوست شخصیت ہیں، ہم بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ان کی کرکٹ کھیلنے کی بہت سی کہانیاں ہم نے بھی سُن رکھی ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے بابا گراﺅنڈ میں چند شاٹس کھیلی تھیں لیکن شاید قومی کھیل کی بحالی اور ماضی والے مقام پر اس کی واپسی کے لئے انہیں اپنے دوست اختر رسول کا ”بھرپور پلان“ متاثر نہیں کر سکا یا پھر ابھی محترم وزیراعظم اور ان کے قریبی رفقا کے نزدیک یہ زیادہ اہم مسئلہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہاکی فیڈریشن کی ریل گاڑی کو سیٹی بجا کر گزار دیا گیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیگرو پونٹے، بوولینڈر اور دیگر عالمی شہرت یافتہ شخصیات کو پاکستان ٹیم کی عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں کمی محسوس ہو رہی ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ گرین شرٹس ورلڈ کپ سمیت تمام بڑے ایونٹس کا حصہ ہوں لیکن ہمارے ارباب اختیار اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ غیر سنجیدہ لے رہے ہیں ورنہ اب تک کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا، یعنی غیروں کو دکھ ہے اپنوں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں یار! ویسے اختر رسول کو ارد گرد نظر رکھنی چاہئے۔ نجم سیٹھی کے لئے وزیراعظم محترم کی ہمدردیاں اور جھکاﺅ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لئے وزیراعظم سے ملنا، تصویر بنوانا اور اخبارات میں شائع کروانا کوئی مسئلہ ہی نہیں پھر ہاکی سے سوتیلوں والا سلوک کیوں؟ ہاکی فیڈریشن کو چاہئیے کہ اگر ہو سکے تو نجم سیٹھی سے ہی میاں نواز شریف کو سفارش کروا دیں، ہو سکتا ہے کام بن جائے، نہیں تو پھر انقلابی بن کر اولمپئنز کو ساتھ لیکر پارلیمنٹ ہاﺅس کے بعد دھرنا دے دیں، پیشتر اس کے کہ وہاں طاہر القادری دھرنا دے دیں اور وہ جگہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے۔
اپنے وقت کے مشہور سنٹر ہاف اختر رسول کے لئے اب سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ فنڈز کہاں سے اور کیسے آئیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے حکومت سے گرانٹ کیلئے منصوبہ بندی کی تھی اب سب کی نظریں ان کے پلان ”بی“ پر ہیں کہ ایک مرتبہ گول کرنے میں ناکامی کے بعد وہ کس حکمت عملی سے گیند کو گول پوسٹ تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی حقیقی معنوں میں اب اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ اپنے وسائل خود پیدا کرنے ہیں یا پھر ہر لمحہ نظریں حکومت کی طرف ہوں گی۔