رسول کریمؐ نے خواب میں فرمایا عافیہ میری بیٹی ہے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہے۔ بے قصور اور بے خبر۔ اتفاق سے اس کی اپیل امریکی عدالتوں نے منظور کی ہے۔ اس نے ایک لاکھ 85ہزار ڈالر جمع کرا دیے ہیں مگر جج وہی ہے جس نے 86 برس کی مضحکہ خیز سزا دی تھی کہ پوری دنیا میں اس فیصلے پر تنقید ہوئی۔ اب اڑھائی لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے جو عافیہ اور فوزیہ کے پاس نہیں ہیں۔ کتنے ہی لوگ پاکستان میں ہیں جن کے پاس کروڑوں ڈالر ہیں۔ وہ کس کام آئیں گے؟ انہوں نے امریکہ سے بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ خوبصورت دنیا کی مسافر عورت ہے اور اس کے لئے دین کو ہمسفر رکھتی ہے۔ بہت اعلیٰ گھرانے سے اس کا تعلق ہے۔ میں نے اسے نہیں دیکھا مگر اس کے لئے اتنا پڑھا اور سنا ہے کہ وہ اب ہمارے گھر کی خاتون ہے۔ اس کی عظیم بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اس کی محبت میں جو کام کیا ہے جیسی جہد مسلسل میں ہے، درد کی جن منزلوں کے قریب ہے اسے دیکھ کے حیرت ہوتی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس بے مثال بہن سے ملاقات ہوئی ہے۔ ٹیلی فون پر کئی دفعہ بات ہوئی ہے۔ وہ حیرت انگیز جذبوں کی عورت ہے۔ اچھی امیدوں اور دعائوں کی ہمسفری میں جو تڑپ اور طلب اس کے دل میں کئی رنگوں کے چراغ جلاتی ہے۔ ان کی روشنیوں سے میری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔
ان دنوں ڈاکٹر عافیہ کی یاد آئی کہ ساہیوال سے ایک بہت جنونی نوجوان شاعری کے عشق میں مبتلا بلال نے مجھے کئی بار فون کیا اور ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کے حوالے سے بات کی۔ اس خوبصورت دل والے جوان کے جذبوں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ وہ بہت جذباتی تھا۔ آج کل ڈاکٹر عافیہ نے اپنے لئے ایک غیرعادلانہ فیصلے کے خلاف پھر اپیل کی ہے اور وہ سماعت کے لئے منظور ہو گئی ہے۔ اس کے لئے عافیہ کا موقف بہت مضبوط ہے۔
امید ہے کہ وہ کچھ دنوں کے بعد اپنے وطن میں ہو گی۔ اپنے گھر والوں کے درمیان ہو گی۔ اپنی بے مثال پیاری بہن فوزیہ اور اپنی شاندار امی کے پاس ہو گی۔ یہ گھرانہ صبر و تحمل کے سارے قرینوں سے سجا ہوا ہے۔ ہمت اور حوصلے کی عجیب لہر ان کے لہو میں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ بالکل بے قصور ہے اور اس کی اذیتوں کے لئے یہ بری خبریں آتی ہیں ان کے دلوں پر پہاڑ گرتے ہیں مگر وہ اس بوجھ تلے دب نہیں گئیں۔ زندہ سلامت ہیں۔ اور استقامت کے سارے مرحلوں سے سرخرو گزر آئی ہیں۔ اب سرشار ہونے کی باری ہے مگر اس میں شاید ابھی کئی مشکلات ہیں۔
پاکستان کی ہر حکومت نے بزدلی اور بے پروائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اتنی بے حسی حکمرانوں کے رویے میں ہے کہ بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ صدر زرداری اور نواز شریف نے ذرا سی ہمت دکھائی ہوتی تو کام بن گیا تھا۔ ان میں سے ایک بھی ڈٹ جاتا اور امریکہ سے مطالبہ کرنے کی ہمت کرتا تو عافیہ کب کی اپنے وطن میں اپنے لوگوں کے درمیان ہوتی۔ اب تو سارا پاکستان اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا ہے۔ کوئی نہیں تھکا تو وہ اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ہے اور اس کی عظیم امی ہے۔
بڑی کوششوں کے بعد ڈاکٹر فوزیہ سے بات ہوئی۔ وہ اس بار مجھے تھکی تھکی سی لگی۔ اتنی مسلسل محنت کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے تو کوئی بھی آدمی مایوس ہو سکتا ہے۔ وہ مایوس نہیں مگر پرامید بھی نہیں ہے۔
اس بار ڈاکٹر عافیہ زیادہ امید کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ مقدمے کا دوبارہ کھلنا اور سماعت کے لئے منظور ہونا بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر عافیہ اور اس کے وکیلوں کا خیال ہے کہ اس بار اگر امریکہ میں عدل و انصاف کا کوئی دروازہ غیرامریکیوں کے لئے بھی کھلا ہوا تو وہ اس سے باہر ضرور آئیں گی۔
ڈاکٹر عافیہ امریکی شہری نہیں ہے۔ ان پر امریکی عدالت میں مقدمہ چل ہی نہیں سکتا۔ پھر جس جرم کے لئے ان پر الزام ہے وہ امریکہ کی زمین پر نہیں ہوا۔ افغانستان میں ہوا ہے۔ اور ڈاکٹر کو گرفتار پاکستان سے کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو اپنی مرضی کے وکلاء کی اجازت بھی نہ ملی۔ یہ غیرقانونی اقدامات ہیں۔ اب قانون بولے گا اور ڈاکٹر عافیہ کے لئے جیل کے دروازے کھولے گا۔
ڈاکٹر فوزیہ ہسپتال میں ڈبل ڈبل ڈیوٹیاں کر کے بہت نڈھال ہو چکی ہے۔ ان کے پاس زیورات بھی نہیں بچے کیونکہ وہ سب اس راستے میں بک چکے ہیں۔ کسی خاتون کے لئے ایک بڑی متاع اس کے زیورات ہوتے ہیں۔ ان کے لئے یہ خوشی اس سے بہت بڑی ہو گی جب گھر میں عافیہ کے قدموں کی چاپ سنائی دے گی۔ کبھی کبھی کسی کے قدموں کی آہٹ دنیا کی سب سے خوبصورت گنگناہٹ ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسکراہٹ نہیں ہوتی۔ تب مسکراہٹ کی آواز بھی آنے لگتی ہے۔
86 برس کی سزا سنانے والے جج نے عافیہ کے لئے گھر والوں سے بات چیت بھی رکوا دی ہے۔ خدا کے لئے اپنی بیٹی کی مدد کرو۔ ہمارے ملک میں جتنے مخیر لوگ ہیں اس کی مثال دنیا میں کم کم ملتی ہے۔ ہم جتنی زکوٰۃ خیرات دیتے ہیں۔ اس کے سامنے ہمارے ملک کا بجٹ بھی کمتر ہے۔ لاکھوں لوگوں کی سسکتی ہوئی زندگیاں مسکرانے لگ جاتی ہیں۔ زندگی ایک اور زندگی بن جاتی ہے۔ خدا کی قسم میں ایک گناہگار آدمی ہوں۔ میرے دل میں ایمان کی یہی شکل باقی رہ گئی ہے کہ صرف عشق رسولؐ کا ایک چراغ جلتا ہے اور وہ کبھی بجھا نہیں۔ کوئی اسے بجھا نہیں سکتا۔ میں اس روشنی کے واسطے سے آپ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ کھلے دل سے کام لو۔ بے شک ڈاکٹر عافیہ کے لئے بہت بڑی قربانی والی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے فون پر بات کر لو اور کچھ کرو۔ اس کا موبائل نمبر 0333-2148780 ہے۔
اس موقع پر میں ڈاکٹر عافیہ کے ایک خواب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو عدالت میں 86برس کی سزا سننے کے بعد اس نے جج کو معاف کرتے سنایا تھا۔ یہ خواب مجھے ڈاکٹر فوزیہ نے سنایا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا میں پنجرے میں بند تھی۔ رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ تشریف لائے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت یسوع مسیحؑ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مسیحی بھائی اور یہودی بھی توجہ کریں۔ دونوں نے مجھے پنجرے سے نکالا اور ایک ہال میں لے گئے۔ وہاں لوگ پسپائی کی حالت میں تھے۔ حد نظر تک یہی بے قراری اور کھلبلی کا منظر تھا۔ آپؐ نے انہیں مخاطب فرمایا! جو قومیں انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہیں تو ان پر تباہی آتی ہے۔ جن کے پاس طاقت ہو تو انہیں درگزر کرنا بھی آنا چاہئے۔ پھر انہوںؐ نے مجھے مخاطب کیا۔ فرمایا کہ مائی ڈاٹر عافیہ یہ بات تم بھی یاد رکھنا کہ جب اللہ تمہیں طاقت دے تو تم بھی درگزر سے کام لینا۔
اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ نے جج صاحب سے کہا کہ آپ نے جو کچھ بھی کیا میں آپ کو معاف کرتی ہوں اور پھر اپنے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ تحمل سے کام لیں اور احتجاج بھی کریں تو شریفانہ طریقے سے کریں۔
میں حکومت اور دولت والوں سے پھر اپیل کرتا ہوں کہ وہ خاتون جس کو میرے آقا و مولا محبوب خلائق رسول کریم حضرت محمدؐ نے اپنی بیٹی کہا اسے پنجرے سے نکالا تو وہ ہر صورت میں رہا ہو گی۔ اسے طاقت بھی ملے گی اور معافی کا ہنر بھی اس کے دل میں ہو گا۔ اس لمحے سے فیض یاب ہونے کے لئے آپ اپنا حصہ ڈالیں اور بے حساب کے مالک بن جائیں۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ صرف الطاف حسین بھائی نے تعاون کیا۔ عمران خان یا حکومت کے کسی آدمی نے کوئی خیر خبر نہیں لی۔