بھٹو ، الطاف حسین اور نواز شریف، تاریخ کا سبق؟
جن دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پرنواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چل رہا تھا، ان ایام میں، میں پاکستان ٹیلی ویژن لاہور کے شعبہ نیوز میں رپورٹر تھا ۔ ہم اکثر یہ بحث کیا کرتے تھے کہ بھٹو صاحب نے تو احمد رضا قصوری صاحب کو "Eliminate" کرنے کا حکم دیا تھا کیا یہ حکم اقدام قتل ہے ؟ یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد کی عدالت میں چل رہا تھا ۔ سرکاری وکیل کے طور پر استغاثہ کی جانب سے اس کیس کی پیروی معروف قانون دان مرحوم انور بار ایٹ لاء کی سربراہی میں اعجاز حسین بٹالوی اور ایم اے رحمن ایڈوکیٹ کر رہے تھے۔ یہ مقدمہ دفعہ 301کے تحت درج کیا گیا تھا ۔ اس دفعہ کا اطلاق اس لیے کیا گیا کہ قتل کی منصوبہ بندی احمد رضا قصوری کے خلاف تھی جبکہ قتل انکے والد ہو گئے۔علم سیاسیات اور صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے ہم چند ساتھی انور بار ایٹ لاء کو ملے اور پوچھا کہ کیا اعانت جرم میں بھٹو صاحب کو دفعہ 301کے تحت سزائے موت ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے لیکن یہ کیس جس انداز میں آگے بڑھ رہا ہے لگتا ہے کہ بھٹو صاحب بچ نہ سکیں گے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قتل کے مقدمات میں ،میں نے کسی بے گناہ کو پھانسی چڑھتے نہیں دیکھا۔ ممکن ہے بھٹو صاحب ، قصوری صاحب کے قتل میں اس طرح ملوث نہ ہوں لیکن میں انتہائی اعتماد سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر بھٹو نے اپنی سیاسی اور جاگیردارانہ زندگی میں اس سے پہلے کسی بے گناہ کو قتل کروایا ہو تو بھٹو صاحب اس کی پاداش کی بناء پراس کیس میں پوری طرح گرفت میں ہیں۔ا نہوںنے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میںنے اقدام قتل کے جتنے بھی کیسز کا دفاع کیا اور اگر میرے کلائنٹ کو پھانسی کی سزا ملی تو میں پھانسی سے ایک دن پہلے اس سے "کال کوٹھری"میں جا کر یہ ضرور دریافت کرتا رہا کہ آج تمھاری آخری رات ہے، میں نے تمھارے دفاع کیلئے مقدور بھر کوشش کی، تم بظاہر بے گناہ بھی تھے، تم نے دوران مقدمہ بار ہا حلفاً بھی یہی کہا کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا پھر تمھیں یہ سزا" پھانسی" کیوں ہو رہی ہے تو ان کا جواب حیران کن ہوتا تھا کہ میں نے یہ قتل تو نہیں کیا لیکن اس سے پہلے میں نے قتل ضرور کیا ہے یا کئے ہیں اور میں ان میں پکڑائی نہیں دیا۔ (انور بارا یٹ لاء کا انتقال بھٹو کیس میں لاہور ہائی کوٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہو گیا تھا ) انور بار ایٹ لاء مرحوم کے یہ الفاظ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیںکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ الطاف حسین صاحب کے مقدمے کو ہی لیجئے‘ برطانیہ میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں تحقیق کا دائرہ جس طرح رخ بدل رہا ہے وہ کئی سوالات لیے ہوئے ہے۔ ہماری دعا ہے کہ الطاف حسین ان تمام معاملات سے با عزت بری الذمہ ہوں۔ وہ ہمارے ملک کی ایک اہم عوامی جماعت کے سربراہ ہی نہیں بلکہ پاکستانی سیاست میں غریب اورسماجی طور پر پسے ہوئے عوام کی آواز ہیں۔ملک میں ضیا ء الحق یا مشرف کی فوجی آمریت ہویا پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ جمہوری دور،ایم کیو ایم کلیدی کردار کی حامل رہی ہے۔ الطاف حسین نے اپنے سیاسی فلسفے اور حکمت عملی کی بدولت کئی دہائیوں سے پاکستان کے سیاسی منظر کی ایک باگ اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ ابھی تک ایم کیو ایم کا یہ کردار قائم ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین گزشتہ 22سال سے لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ واحد مثال ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا قائد اپنی پارٹی سے اس قدر طویل عرصے سے دور ہے لیکن اس جماعت پر ان کی گرفت کمزور نہیں ہوئی انہوں نے ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ کر جس طرح اپنی جماعت اور عہدہ داروں پر کنٹرول اور کمانڈ قائم رکھا ہے اسکے جائزے کیلئے پی ایچ ڈی سے کم مقالہ تحریر نہیں کیا جا سکتا۔الطاف حسین کا سیاسی فلسفہ ہے کہ متوسط اور غریب طبقے کے لوگ پارلیمنٹ تک پہنچیں۔ اس سارے پس منظر میں الطاف حسین کوجس صورتحال کا سامنا ہے ہم انور بار ایٹ لاء کی طر ح کے کسی ایسے فرد کی تلاش ہے جو اس عقدے کو کھول دے کہ مقدمہ توڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا ہے لیکن منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین پر فرد جرم کیسے عائد ہوگئی چاہے وہ پولیس کی حد تک ہی سہی۔ برطانوی قانون کیمطابق قتل کی سزا موت نہیں ہے جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا ملتی ہے ۔ برطانوی قانون میں اقدام قتل بھی بہت بڑا جرم ہے لیکن اس جرم کی حیثیت انفرادی عمل شمار کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف منی لانڈرنگ ایک ایسا جرم ہے جسے انفرادی کی بجائے قومی جرم تصور کیا جاتا ہے اور اسکی سزا 14سے 16سال تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس اعتبار سے اس جرم کی سزا اقدام قتل سے بھی زیادہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور مجلس عاملہ اس معاملے پر سیاست کرنے کی بجائے قانونی اور عدالتی موشگافیوں کا توڑ کرے اور وہ اس کیس کو انتہائی سنجیدہ لیتے ہوئے قانونی پہلوئوں کے جوابات تیار کرے اور ایسی دستاویزات برطانوی پولیس اور عدالت کے سامنے رکھے کہ یہ کیس عدالتی تاریخ کی ایک نظیر بن سکے۔اس کیس کو سازش قرار دینے سے ایم کیو ایم کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت اللہ تعالیٰ کے حضوراستغفار اور معافی کی درخواست پیش کرے جب تک وہاں سے منظوری نہیں ہوتی دنیاوی اسباب مدد نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کیس کا انجام اور پرویز مشرف کی صورتحال ہم سب کیلئے ایک سبق ہے ۔اسی طرح دوسری جانب نواز شریف صاحب ( کہ جنہوں نے ایام جلا وطنی میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں گڑگڑا کر استغفار اور معافی طلب کی ) کو اللہ تعالیٰ نے پھر عزت و تکریم سے منصب جلیلیہ پر فائز کیا۔ یہ تازہ مثالیں تو ہمارے سامنے ہیں لیکن تاریخ اقوام عالم میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں شرط صرف ان سے سبق حاصل کرنا ہے۔