آئین وجمہوریت ہماری اساس ‘ انکی حفاظت ضروری
اس حقیقت سے ہم سب آگاہ ہیں کہ ہمارے سیاسی ، عسکری ، عدالتی اور صحافتی اداروں میں بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بحران بروقت تدارک کے فقدان کی وجہ سے طوفانوں کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں بھی کچھ ایسے ہی بحران برپا تھے اور حکومت ان بحرانوں کے سامنے بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ انہی دنوں جمہوریت اور آئین کی حمایت میں جنرل راحیل شریف کا ایک بیان سامنے آیاتو حکومتی حلقوں نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آئین اور نظام جمہوریت کی حفاظت اور حمایت ہمارا قومی فریضہ نہیں ہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ حلف کی پاسداری کے اظہار پر داد و تحسین کے نقارے بجائے جاتے ہیں۔ اب اس طرز فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ حلف کی پاسداری ہم سب پر فرض ہے اور اس فریضے کے اظہار پر حیرت، خوشی یا پریشانی کا تاثر ناقابل فہم ہے۔
پیپلز پارٹی کی جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کیلئے حمایت غیر متزلزل ہے۔پیپلزپارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے جنرل ایوب خان ،جنرل یحی خان ، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی ہے اس لئے حالیہ دنوں میں ہم نے ایک بار پھر جمہوریت کے استحکام کیلئے حکومت کی طرف دست تعاون بڑھایا ۔ لیکن سیاسی طور پر اس حمایت کا سیاسی فائدہ موجودہ حکومت کے حصے میں آیا اور اسے پھر سے سنبھلنے کا موقع ملا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھول کر برداشت ،تحمل ،روداری اور قومی ذمہ داریوں کی نئی روایات کا آغاز کریں او ریہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب ہر ادارہ اپنی آئینی اور قانونی حدود کو سمجھے اور اس پرکاربند رہے۔اگر ہم ملکی تاریخ کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ماضی کے ماورائے آئین و قانون اقدامات کے بدتر اثرات کو ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اس لئے اب ہمیں باہمی تعاون سے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن کی بدولت آئین اور قانون کی حکمرانی کو ہر شعبہ زندگی میںیقینی بنایا جاسکے۔ اب ہمیں اپنے سینوں پر اپنی بندوقیں تاننے سے گریز بھی کرنا ہے اور لباسوں پر سیاہی ڈالنے کی روش سے بھی باز رہنا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارا اندرونی انتشار ہمارے دشمنوں کی خواہش ہے اور دشمنوں کی خواہشوں کی تکمیل کہاں کی حب الوطنی ہے ؟ برے وقت میں اچھے فیصلے ہی بہتری کی امید دلاتے ہیں اور اب انتشار کے خاتمے کیلئے حکومت کی جانب سے اچھے فیصلوں میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے‘ ورنہ بہت سے بحرانوں کا اجتماع ملک ، جمہوریت اور عوام کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا ۔ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی بڑی اہمیت ہے اور وہ مسائل جنہیں ہم پارلیمنٹ میں حل کرسکتے ہیں انہیں سڑکوں پر لے جانا دانش مندی نہیں کیوں کہ عوام پارلیمنٹ کی تشکیل اسی لئے کرتے ہیں کہ انکے نمائندے وہاںبیٹھ کر مسائل حل کریں نہ کہ مسائل پیدا کریں اس لئے ہمیں پارلیمنٹ کے فورم کو عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے استعمال کرنا ہے نہ کہ ان کو مسائل میں الجھانے کیلئے ۔ ہر جمہوریت پسند اس بات پر متفق ہے کہ آئین شکنی سب سے بڑا جرم ہے اس لئے آئین شکنی کا ہر قدم خواہ وہ زبانی ہو یا عملی قابل گرفت ہونا چاہئے ۔ یہ آئین اوراس میں دیا گیا نظام ملک و قوم کی امانت ہے اور ہم اپنے آئین اور نظام کو چند آئین گریز لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس ضمن میں بڑے سیاست دانوں پرزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ قومی دھارے کے سیاست دان کوچہ سیاست کی نفی کرنے والوں کے کندھے سے کندھا ملا کر آگے نہ بڑھیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں جمہوریت کو اصل خطر ہ ان لوگوں سے ہے جن کے پاس نہ تو حکومت میں آنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ حکومت چلانے کا کوئی نظام موجود ہے ۔ اب ہمیں اس بات پر متفق ہوجانا چاہئے کہ ہم نے ہر قیمت پر اپنے آئین کی پاسداری کرنی ہے۔ اس آئین کو بنانے والوں میں مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسے جید علماء اور ذوالفقار علی بھٹو اور ولی خان جیسے سیاستدان شامل تھے‘ اس لئے اس آئین کے خلاف لب کشائی کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کو زیب نہیں دیتی۔ لیکن ہمارے ہاں کیوں کہ آزادی اظہار و عمل کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا رحجان ہے اس لئے تماشہ بنانے اور بنوانے کا رواج عام ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ دیار غیر میںقطار توڑنے کی جرات بھی نہیں کرتے وہ ہمارے ملک میں آئین توڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔میںنے گزشتہ سال کے اوائل میں تحریر کیا تھا کہ ـ " مسلم لیک نواز کی حکومت کو اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک و قوم کو بیرونی اور اندرونی طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پنجرے سے نکال کر آزاد اور خود مختار حیثیت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت ، عوام اور پارلیمنٹ کی حفاظت کرے اور ایسے اقدامات سے گریز کرے جو اسٹیبلشمنٹ اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کا باعث بنتے ہیں " ۔ لیکن میرے یہ الفاظ حکومتی سماعت تک پہنچنے سے قاصر رہے یا بے اثر ثابت ہوئے اور اب ایک سال کی قلیل مدت کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ طاقتور اداروں کو حکومت نہیں بلکہ طاقتور ادارے حکومت کو چلا رہے ہیں۔ ایک سال کے حکومتی تجربے کے بعد حکمرانوں کیلئے سیاسی اور انتظامی بیداری ضروری ہے اور حکومتی اداروںکو بر وقت اقدامات سے قاصر نہیں ہونا چاہئے۔ صحیح اقدامات کو بروقت اٹھانے سے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے بہت سے ادارے بروقت قدم اٹھاتے ہی نہیں اور اگر اٹھائیں تو پھر حدیں پھلانگنے پر تل جاتے ہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی عملداری کمزور ہے اس لئے نہ میڈیا کی الزام تراشیوں پر کوئی قدغن ہے اور نہ صحافیوں کے قتل ، ان پر تشدد اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی حکمت عملی موجود ہے۔ جس معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول جتنا طاقتور ہوگا وہ معاشرہ اتنا ہی خود سر، منتشر اور کمزور ہوگا۔
سیکورٹی کی بات کریں تو ملک بھر کی سیکورٹی کے مسائل ایک طرف اور اسلام آباد کی سیکورٹی کی حالت زار ایک طرف۔ یہاں کی سیکورٹی حکومتی اقدامات کا کھلے عام منہ چڑا رہی ہے۔ اسلام آباد میں سکندر کی سرکشی سے لیکر کچہری میں دہشت گردی ، سبزی منڈی میں بم دھماکہ ، سکھوں کا پارلیمنٹ پر دھاوا ، حالیہ بم دھماکے، فتح جنگ میں آرمی آفیسر کی شہادت ، عدلیہ کیخلاف بینر لگانے کا معاملہ اور کراچی ائرپورٹ پر حملہ سیکورٹی کی انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی ہے ۔ اس صورت حال میں خفیہ اداروں کیلئے بہت سے سوالات پوشیدہ ہیں۔ دہشت گردی کے واقعے سے پہلے روک تھام کا نظام ناکام نظر آتا ہے ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد جدیداور وافر اسلحہ سمیت کب، کیسے اور کہاں پہنچ جاتے ہیں ؟ انکی نقل و حرکت پر کوئی نظر یا رکاوٹ کیوں نہیں ہے؟ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ نظام انہتائی کمزور ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کے اہلکاروں کی ڈیوٹی کا مقصد دہشت گردوں کی روک تھا ہونا چاہئے نہ کہ بے ضرر لوگوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنا ۔ عام حالات میںتو شاید یہ مسرت انگیز کام قابل لحاظ ہو لیکن جب ملک دہشت گردی کی بدترین لپیٹ میں ہو تو پھر میدان جنگ کو چھوڑ کر کھیل کے میدان میں کودنا ہرگز دانشمندی نہیں ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں عام آدمی ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی کی ہمت بھی نہیں رکھتا پھر یہ کون لوگ ہیں جو دن دہاڑے عدلیہ کے خلاف بینر لگا کر غائب ہوجاتے ہیں؟ ان دنو ں حکومت کیلئے ہوش مندی اور بیدار مغزی انتہائی ضروری ہے مگر حکومت بے ہوشی پر مائل ہے ۔
اس امر میں اب کوئی دو رائے نہیںکہ ملک کا مستقبل آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے استحکام میں مضمر ہے اور اگر کسی کو اس حقیت پر شبہ ہے تو وہ ہماری تاریخ کے وہ اوراق پلٹ کر دیکھ لے جہاں آمرانہ دور کے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کی داستانیں رقم ہیں۔ اب ہمیں ریاست کے اندر ریاستیں ، عدالتوں کے اندر عدالتیں ، اداروں کے اندر ادارے ، جمہوریت کے اندر آمریتیں اور آمریتوں کے اندر جمہورتیں بنانے کے چکر سے نکلنا ہوگا ۔ ورنہ ہم تنزلی سے پامالی کی طرف بڑھتے رہیں گے اور ملک و قوم کو فخر اور سربلندی سے ہمکنار کرنے کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں کرسکیں گے۔ ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ 14اگست 1947یوم آزادی کے بعد ہم نے اپنی قوم کو فخر اور انبساط کی بجائے صدمات کے دن دیے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کا دن، سقوط ڈھاکہ کا دن ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کادن، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا دن وغیرہ۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم نے ماضی میں ایسی تاریخ کیوں رقم کی اور اب ہم کیا تاریخ لکھنے جارہے ہیں ؟ ہماری فاقہ مستی کا یہ عالم ہے کہ اب ہم قرض خواہی کو بھی تاریخی کامیابی قراردینے لگے ہیں ۔ یہ ملک جس کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اسکے وزیراعظم کا ورلڈبنک سے 700ملین ڈالر قرض ملنے پر یہ کہنا کہ یہ تاریخی کامیابی ہے ہمارے معاشی سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے ۔ مجھے امیدہے کہ ہماری آنیوالی تاریخ میں وزیر اعظم کا یہ جملہ ہمارے دیوالیہ پن پر مہرتصدیق بن کر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ او رمورخ آنیوالی نسلوں کو بتائے گا کہ اس دور میں حکمرانوں کی تاریخی کامیابی قرض کا حصول تھا۔ ہم انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حکمران 700ملین ڈالر قرض کے حصول کی تاریخی کامیابی پر قومی سطح پر جشن کا اعلان کب کرتے ہیں ۔میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مسلم لیگ نواز جب اپوزیشن میں تھی تو اس کا زورکلام اس بات پر تھا کہ بجٹ بنانا آئی ایم ایف اور بابوئوں کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کاکام ہے ۔ اور یہ کہ ایک پارلیمانی بجٹ کمیٹی ہونی چاہئے اور اس کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میںبجٹ کی تشکیل و ترتیب کو مکمل کیا جانا چاہئے۔ لیکن اب جب کہ مسلم لیگ نواز برسراقتدار ہے تو اپنے دعوئوں اور وعدوں کے برعکس آئی ایم ایف اور بابوئوں کا ریڈی میڈ بجٹ ایوان میں لے آئی ہے اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ اگر اس بجٹ کو پارلیمنٹ کا بجٹ بنانا ہے تو پھر حکومت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کی اچھی تجاویز کو قبول کرتے ہوئے انہیں بجٹ کا حصہ بنائے تاکہ یہ بجٹ آئی ایم ایف اور بابوئوں کی بجائے عوامی نمائندوں کا بجٹ کہلاسکے۔میری خواہش ہے او ردعا ہے کہ ہمارے ستون اب ایک دوسرے کو گرانے کی بجائے ملک کو سہارا دینے کا کام کریں تاکہ ہم تماشوں کے دور سے نکل کرٹھوس ترقی کی دوڑ میں داخل ہوسکیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہر ادارہ اپنے اختیارات کو آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر استعمال کرے۔ ورنہ ایک دوسرے کی راہوں میں کانٹے بچھانے سے ہم اپنے پائوں تو زخمی کرسکتے ہیں منزل مراد نہیں پاسکتے۔ کیکر کے بیج بو کر گلابوں کی تمنا کار بے کار ہے ۔