بزدلانہ کارروائیاں
دہشتگردی کو شکست دینے کیلئے دہشتگردی کے سامنے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اوراس کیلئے ہمت اور عزم چاہیے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اس صفت سے سراسر محروم ہے۔ ایران میں واقعات ہوتے ہیں تو ایرانی حکومت دنوں میں مجرموں کو پکڑ کر پھانسیوں پر لٹکا دیتی ہے یا پھر سامنے کھڑا کرکے بندوقوں سے اڑا دیتی ہے یہی کچھ سعودی حکومت کر رہی ہے۔ چین کے شہر ارونچی میں دو ہفتے قبل دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا۔ 24گھنٹوں کے اندر اندر حکومت نے سو سے زائد مشتبہ لوگ زیر حراست لئے جن میں سے 81کو مختلف سزائیں دی جا چکی ہیں۔ 9پھانسی پر لٹکا دئیے اور 24 کیخلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ تو یہ ہوتا ہے قومی عزم۔ اپنے ہاں حکومت اتنی دلیر ہے کہ دہشت گردوں سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کر سکتی۔ پھانسی کی سزا ویسے بھی ختم کی جا چکی ہے جس سے ملک میں بے گناہ لوگوں کے قتل بڑھ گئے ہیں۔ مجرموں کا دل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پانچ روپے کے جھگڑے پر بھی آدمی مار دیا جاتا ہے۔ بدفعلی یا ریپ کے بعد مظلوم اور بے بس لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ملزم دندناتے پھرتے ہیں پولیس کی ہمت نہیں کہ مجرموں کو پکڑ سکے۔ کراچی میں دہشتگردی کیخلاف پانچ ماہ سے آپریشن جاری ہے۔ پوری سندھ پولیس اور سندھ رینجرز آپریشن کر رہے ہیں۔کئی ارب روپے کا روزمرہ کاخرچہ ہے جو ظاہر ہے عوام کی جیبوں سے جا رہا ہے۔ کارکردگی یہ ہے کہ ایک اخباری اطلاع کیمطابق 17 ہزار سے زائد دہشت گرد پکڑے گئے اُن میں سے صرف سولہ کو سزا ملی۔ سب سیاسی پریشر کی وجہ سے رہا ہو گئے۔ اب تو یہ بھی اطلاع ہے کہ جنہیں دہشت گرد سمجھ کر آپریشن کے دوران مارا گیا تھا انکی فیملیز کو دو دو لاکھ ہرجانہ بھی ادا کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف زوردار آپریشن کے باوجود 10سے 12لاشیں روزانہ مل رہی ہیں۔ شروع شروع میں جب ٹرینوں پر حملے ہوتے تھے تو جناب خواجہ سعد رفیق صاحب ایک آدھ بڑھک مار دیا کرتے تھے جس سے حکومت کی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ اب انکی زبان بھی خاموش ہو چکی ہے۔ ان حالات میں دہشتگردی کیسے ختم ہوگی سوچا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ قومی شیرازہ بکھر رہا ہے اور حکمران اپنے جعلی ترقیاتی کاموں اور مسکراہٹ بھرے فوٹو گرافس کی تشہیر کے ذریعے اپنی تعریفیں کرانے سے فارغ ہی نہیں۔ دہشتگردی پر خرچ ہونے کی بجائے اربوں روپے روزانہ اشتہارات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ قوم کا اللہ حافظ۔
اب تک جن قوموں نے دہشت گردی سے کامیابی سے مقابلہ کیا ہے انہوں نے چار راہنما اصول اپنائے۔ پہلا اصول تو ہے حکومتی عزم۔ اگر کوئی بھی کام کرنے کا عزم ہو تو چیونٹی بھی کامیاب ہو جاتی ہے چہ جائیکہ حکومت۔ وطن عزیز میں جب سے دہشتگردی کی لعنت آئی ہے ہمارے کسی لیڈر نے بھی اسکے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کی ۔سب نے دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے جس سے بعض اوقات احساس ہونے لگتا ہے شاید حکومت خود اس کا حصہ بن کر کوئی بین الاقوامی ایجنڈا پورا کر رہی ہے۔ دوسرا اصول ہے دہشت گردی کیلئے قوم کو بیدار کرنا اور ساتھ ملانا۔ قومی تعاون کے بغیر کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری حکومت کا عجیب رویہ ہے کہ قوم کو ساتھ ملانا تو رہا درکنار وہ تو عوام کو یہ تک بتانے کیلئے تیار نہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کس مرحلے پر ہیں اور کیا مشکلات ہیں؟ تیسرا اہم اصول سیکورٹی اداروں کی خصوصی تربیت ہے اور یہ کام تعداد سے نہیں بلکہ استعداد سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پولیس، لیویز، ایف سی، رینجرز اور حٰتی کہ فوج بھی اس قسم کی خصوصی تربیت سے محروم ہیں جو دہشت گردوں کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے۔حکومت صرف ایک ہی کام کرتی ہے کہ جہاں دہشت گردی کا شک ہو پولیس کی نفری بڑھا دیتی ہے اور پولیس وہ ہے جو اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لئے پولیس کی اپنی شہادتیں دو ہزار سے زائد ہیں۔ پولیس کی صلاحیت کوئٹہ میں بھی نظر آئی۔ کراچی میں بھی اور پنڈی میں محرم الحرام اور کچہری پر حملے کے موقع پر بھی۔ آخری اور سب سے اہم اصول ہے مضبوط انٹیلی جنس کا نیٹ ورک اور یہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ طالبان کا عزم انٹیلی جنس نیٹ ورک اور منصوبہ بندی ہم سے کہیں بہتر ہے۔ انہیں ہماری اہم ترین قومی اداروں کی تمام خامیوں کا بھی پتہ ہے۔ وہ جہاں بھی حملہ کرتے ہیں پورے عزم اور منصوبہ بندی سے کرتے ہیں اور ہماری سیکورٹی تہس نہس کر دیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کہ ہم ہراہم حملے میں انہیں روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ نقصان اٹھانے کے بعد ہم سیکورٹی ہائی الرٹ کرنے کے احکامات دیتے ہیں اورذمہ داری کیلئے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ اور تو اورہمارے فوجی جوان، آفیسرز حٰتی کہ جنرلز تک دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں۔پولیس اور باقی سیکورٹی اہلکار تو ویسے ہی اللہ بھروسے ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس رپورٹس بھی اتنی بیکار اور بے مقصد ہوتی ہیں کہ مذاق معلوم ہوتی ہیں مثلاً محرم الحرام میں ایک رپورٹ تھی: ’’اہم مقامات پر دہشت گردی کاخطرہ ہے‘‘ اس اطلاع سے کہاں تک دہشت گردی روکی جا سکتی ہے عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں انٹیلی جنس سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے Nip the evil in the bud کے اصول پر عمل کرنا ہوتا ہے جو فی الحال کہیں نظر نہیں آتا۔ لہٰذا دلیر راہنمائوں سے اپیل ہے کہ بزدلوں کی بزدلانہ کارروائیاں روکیں اور قوم کو اس مسلسل عذاب سے نجات دلائیں۔ (ختم شد)