’’سوچنے کی بات‘‘
مکرمی! حکمران کہہ رہے ہیں کہ ’’حکومتی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹیں گے‘‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ابھی تک اس کی اجازت کیوں نہیں دی۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے نظر آرہاہے کہ وہ حکومت کے احکامات کے مطابق آپریشن کرنے یااس سے اجتناب کرنے پر پہلے بھی عمل پیرا تھی اور اب بھی وہ حکومت کے فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہے آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم کو قیام امن کیلئے مذاکرات کرنے یا بصورت دیگر آپریشن کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے رابطوں کے ذریعے براہ راست مذاکرات کی راہ ہمورا کی گئی عام آدمی کی خواہش ہے کہ ان حالات میں ضروری ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی نوعیت ، بات چیت میں فوج کو نمائندگی اور آپریشن کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر جو سامنے آرہے ہیں اس پر کنفیوژن کو دور کیا جائے اور تمام ’’پارلیمانی لیڈروں‘‘ کو اعتماد میں لیکر واضع موقف اختیار کیا جائے کیونکہ مولانا سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ’’طالبان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو دس سال میں بھی امن قائم نہیں ہوگا‘‘ وزیراعظم نواز شریف قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں امن و امان کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک طالبان اور اس سے وابستہ گروپوں کی کارروائیاں ’’نظریاتی‘‘ اور فکری اختلافات کا نتیجہ ہیں پاکستان کے مشرق میں بھارت، مغرب میں ایران، شمال میں افغانستان اور جنوب میں سمندر ہے کیا اسلحہ اور دہشت گرد وہاں سے آرہے ہیں حکومت کو اب سخت اقدامات کرنا ہونگے۔ (رضیہ سلطانہ)