قانونی معاملے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے
لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جو برطانوی شہری بھی ہیں ضمانت منظور کر لی ہے۔ ہسپتال ڈسچارج ہونے کے بعد الطاف حسین نے اپنی 3 رکنی وکلا ٹیم کی موجودگی میں پولیس کو 9 گھنٹے کا طویل انٹرویو دیا۔ کسی برطانوی پاکستانی رہنما کا پولیس سے یہ طویل ترین انٹرویو تھا۔ الطاف حسین کو چونکہ انجیو گرافی کے سلسلہ میں ہسپتال داخل ہونا تھا اس لئے پولیس نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک ڈاکٹروں کی جانب سے الطاف حسین کی صحت کو تسلی بخش قرار نہ دیا گیا۔ برطانیہ میں انسانی حقوق کا چونکہ ہر حال میں احترام ہی نہیں سب سے زیادہ اہمیت بھی دی جاتی ہے اس لئے پولیس نے الطاف حسین کی خرابی صحت کو محسوس کرتے ہوئے انہیں پہلے ہسپتال منتقل کیا اور ڈاکٹروں کی تصدیق کے بعد ان سے بیان ریکارڈ کروایا تاکہ قانون اپنا راستہ اپنائے۔ برطانوی قانون کیمطابق سکاٹ لینڈ یارڈ کسی بھی مشتبہ شخص کو 36 گھنٹے تک حراست میں رکھ سکتی ہے مگر الطاف حسین کی صحت کی تسلی کے ساتھ ہی انہیں وکٹوریہ پولیس سٹیشن منتقل کر دیا گیا اور یوں پولیس نے ایک طویل انٹرویو کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا ہے جو ایم کیو ایم کے کارکنان، رہنمائوں، بہی خواہوں اور اہل کراچی کیلئے ایک بہت بڑی خوشی و مسرت کی خبر ہے۔ پولیس متعدد بار کہہ چکی ہے کہ الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں انہیں تمام تر قانونی حقوق دئیے جا رہے ہیں کہ برطانوی شہری ہونے کے ناطے اُن سے برطانوی قانون کیمطابق ہی سلوک روا رکھا جائیگا۔
یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین اپنے آپ کو بے قصور قرار دے رہے ہیں جبکہ گرفتاری سے قبل انہوں نے کارکنان سے خطاب کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ برطانوی پولیس انکے گرد گھیرا تنگ ہی نہیں کر رہی پریشان بھی کر رہی ہے۔ اب ضمانت پر رہا ہونے کے بعد انکا مؤقف ہے کہ برطانوی قانون پر انہیں پورا پورا اعتماد ہے ضمانت کے بعد معاملات چونکہ اب قانون کے تحت چلیں گے اس لئے ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنان کو ہر معاملہ بڑے تحمل اور بُردباری سے سلجھانا ہو گا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ اب کرائون پراسیکیوشن کو ہی کرنا ہے۔ الطاف حسین کی ضمانت پر رہائی میں حکومت پاکستان کے خصوصی تعاون کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ الطاف حسین کو پاکستان ہائی کمیشن لندن کی جانب سے قونصلر تک رسائی اور قائمقام ہائی کمشنر عمران مرزا کی ہسپتال میں ان سے 20 منٹ کی فیس ٹو فیس ملاقات سے انہیں اچھی خاصی ذہنی آسودگی حاصل ہوئی۔ سابق ہائی کمشنر واجد الحسن نے بھی انکی خیریت دریافت کی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین 1992ء سے برطانیہ میں جلاوطنی کی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اس دوران وہ برطانوی شہریت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے مگر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد معاملات الجھ گئے اور بات بڑھتے بڑھتے الطاف حسین کی رہائش گاہ سے برآمد ہونیوالے ’’پائونڈوں کی بھاری تعداد‘‘ تک جا پہنچی، اس پر انکے خلاف ’’منی لانڈرنگ‘‘ کا پولیس نے کیس بنا دیا اور یوں سکاٹ لینڈ یارڈ نے اگلے روز انہیں ان کی رہائش گاہ سے وارنٹ گرفتاری کے ہمراہ گرفتار کر لیا تھا۔ اطلاعات کیمطابق جس وقت انہیں حراست میں لیا گیا وہ پہلے سے طے شدہ اپنی ہسپتال اپوائنٹمنٹ کیلئے تیاری کر رہے تھے۔
الطاف حسین اب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں مگر یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، آگے ’’کرائون پراسیکویشن‘‘ کو اب ان کیخلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرنا ہے‘ اس لئے ایم کیو ایم کے کارکنان کو کسی بھی ایسی سرگرمی سے اجتناب کرنا ہو گا جس سے انکے قائد کے کیس میں منفی اثرات مرتب ہوں۔ مٹھائیاں تقسیم کرنے اور یوم دعا پر قطعی قدغن نہیں، ان کی صحت کی بحالی کیلئے دعا مانگیں مگر انکے قانونی معاملے کو سیاسی ہرگز نہ بنایا جائے۔ الطاف حسین کا ایک بڑا مطالبہ انہیں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ کی فراہمی تھی جو وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہ بیان دے کر کہ ’’الطاف حسین کو دستاویزات دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ان کے اس مطالبہ کو پورا کر دیا ہے، رہا معاملہ لندن کا تو برطانوی پولیس واضح طور پر یہ اعلان کر چکی ہے کہ برطانوی شہری ہونے کے ناطے ان سے برطانوی قانون کے مطابق برتائو کیا جائے گا۔