سونامی بہاولپور چل پڑا
سونامی تعمیر کی علامت ہے یا تخریب کی؟ ’’اللہ نے سونامی میں ایک جہان نور بسارکھا ہے‘‘۔ پتے کی یہ بات مجھے افروز امتیاز نے بتائی۔ لندن کے مڈل ٹمپل ان میں بارایٹ لاء کا یہ طالب علم میرے بیٹے بیرسٹر وقاص فاروق کا کلاس فیلو تھا۔ خلیج بنگال کے کنارے بسنے ولا یہ سیماب صفت نوجوان کہنے لگا: ’’سمندری طوفان زمین پر نئی مٹی کی تہہ بچھاتے ہیں۔ مردہ زمین میں زندگی عود کر آتی ہے۔ یہ مٹی دھرتی کیلئے حیات نوکا سندیسہ لاتی ہے۔ سونامی موت نہیں، زندگی ہے‘‘۔ 7جون کو سیالکوٹ میں سونامی ڈے تھا۔ سیالکوٹ کے کوچہ بازار میں رنگ برنگے بینروں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ لیکن اب ان سے عمران خان کے جلسوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ بینرز مقامی لوگوں کی اپنی تشہیر کامسئلہ ہیں۔ نوجوان عمران خان کی پکار پر بھاگے دوڑے چلے آتے ہیں۔ ملکی سیاست سے لاتعلق اور بیزار نوجوان نسل کو عمران خان کھینچ کر جلسہ گاہوں میں لے آئے ہیں۔ فیض احمد فیض بھی یہی خبر لائے تھے کہ درد کے رشتے کی بندھن میں تمہارے نام پہ آئینگے غمگسار چلے۔ سو یہ غمگسار نوجوان تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم نے 70ء میں بھٹو کے جیالوں کا جنون بھی دیکھا ہے، یہی انداز تھے انکے جوش و ولولہ کے۔ اب 70ء والا ہجوم جلسہ گاہوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیگا۔ خلق خدا کو ٹی وی سکرین نے گھیر لیا ہے۔ پھر بھی سیالکوٹ میں ائیر کنڈیشنڈ یخ بستہ کمرے چھوڑ چھاڑ 47درجہ حرارت میں جینز پہنے لڑکیاں لڑکے، جلسہ گاہ میں مست و رقصاں پر زور نعرہ زن تھے۔ یہ جذبے اور بیداری دیکھ کر جی جھوم جھوم اٹھا۔ پاکستان ہندوستان کافیصلہ نوجوان کرینگے۔ عمران خان کی شخصیت کے طلسم نے نوجوانوں کو اپنا اسیر کر رکھا ہے۔ آج عمران خان ہی سیاست کے بازار میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مجھے سیالکوٹ کے ڈار برادران نے 6/7جون کی درمیانی شب اپنے ہاں گزارنے کی دعوت دی تھی۔ کچھ دعوت سرسری تھی۔ کچھ میں نے سنی ان سنی کردی میں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہاں باغی جاوید ہاشمی کی صحبت بھی میسر آئیگی۔ ان سے رفاقت کے چند لمحے کئی بے جان شاموں پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔ کچھ بہادر اور بھرپور لوگ کتنا روپ سمیٹے رکھتے ہیں۔
حسن ایسا تھا کہ ہراک آئینہ کم پڑگیا
آئینہ کیا عمر بھر کا دیکھنا کم پڑ گیا
میں جاوید ہاشمی کا کمزور بازو، کمزور صحت اور کمزور ڈیل ڈول دیکھ کر سوچنے لگا کہ آسمان والوں نے اس بندے میں کتنی بجلیاںبھردی ہیں۔
حشر کے روز بھی دیوانے ترے پوچھتے ہیں
وہ قیامت جو گزرتی تھی کہاں گزری ہے
اسلام آباد، فیصل آباد کے بعد سیالکوٹ اور اب سونامی کا بہاولپور کی جانب کوچ ہے۔ وہاں بھی کچھ ایسی ہی باتیں دہرائی جائیں گی۔ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا، اگر کوئی انگوٹھوں کے نشانات کی چیکنگ کی بات کرتا ہے۔ آخر یہ انگوٹھوں کے نشانات لگائے کیوں گئے تھے؟ حضور بس اِتی سی بات، ہم نے ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے۔ اب بات مینڈیٹ کی چوری کی ہے‘‘۔ بات چار حلقوں سے شروع ہوئی تھی۔ اب چل نکلی ہے۔ دیکھئے کہاں ٹھہرتی ہے، دیکھئے کہاں جارکتی ہے۔ مڈٹرم الیکشن؟ لیکن یہ تو قافلے کا پہلا پڑائو ہوگا۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ سرکار بہت بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ حکمران محاورے کی زبان میں گھوڑے سے نیچے نہیں اتررہے۔ ڈالر سوروپے سے کم قیمت پر پہنچ چکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں معمول سے زیادہ اضافہ لیکن کیا؟ انور شعور نے ہمارے دل کی بات کی ہے۔
کوئی مالی ترقی ہورہی ہے
بیشک ہورہی ہوگی ہمیں کیا
ہم تو حکومتی کارکردگی کا اندازہ دال، بھات، سبزی، آٹے کے بھائو سے لگائیں گے۔ 12ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والوں کا آٹا پورا نہیں ہو رہا۔ اب گھروں میں سوئی گیس کی عدم دستیابی لوگوں کو ستو گھول کرپلائے گی۔ ہم نے کیا قسمت لے کر آئے ہیں۔ ہمارے دکھ درد کچھ اتنے لادوا بھی نہیں، بس کربلا یہ ہے کہ ہرچارہ گر کو چارہ گری سے گریز ہے۔ جی دیکھا ہے۔ مر دیکھا ہے۔ ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے۔ جاگیر دار اراکین اسمبلی سیاست کو اپنی جاگیر کے انتظام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ صنعتکار جانتے ہیں کہ صنعت میںدن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کیلئے آسان راستہ سیاست کی راہ سے ہوکر جاتا ہے۔ عمران خان نے اس الیکشن میں کئی نوجوانوں کو پارٹی کو ٹکٹ دیئے، پھر انہیں الیکشن لڑنے کیلئے ڈھیروں پارٹی فنڈ سے بھی نوازا۔ اب یہ بات کسی کو بتانے کی نہیں۔ ان پیسوں سے گاڑی خریدی گئی۔چھوٹا موٹا بے گھری کا مسئلہ حل کیا گیا۔ وہ نوجوان کوئی بیوقوف تھوڑی تھے جو یہ فنڈ الیکشن میں کام میں لاتے ہمارے ملک میں نظریاتی سیاسی کارکنوں کا ختم ہونا ہی ہمارا سب سے قومی المیہ ہے۔ کچھ بگڑے امیر زادے ہیں جنہیںاپنی گاڑیوں پر MPA,MNAلکھوانا اچھا لگتا ہے۔ اب تحریک انصاف کا کل اثاثہ اکیلے عمران خان کی مالی دیانتداری ہے۔ اب دیکھئے یہ ہمارے کتنے کام آتی ہے۔ قوم کے ہر فرد کے ذمے قرضہ ایک برس میں 74ہزار سے بڑھ کر 84ہزار ہوگیاہے انڈین نژاد نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر اقتصادیات امرتیا کمارسین بضد ہیں کہ جمہوریت میں قحط نہیں آسکتے ۔ وہ دلیل میں جمہوریت کی جواب دہی کا انتظام پیش کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاںجمہوریت بھی کچھ انوکھے ڈھب کی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں کسی باقاعدہ منشور کی’’ آلائش‘‘ سے بالکل پاک ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ایک فرد کے گرد گھومتی ہیں وہی فیصل آباد کے گھنٹہ گھر والا منظر نامہ، ہمارے سیاسی قائدین ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہیں۔ معجزوں کا زمانہ تاجدار ختم نبوت کے ساتھ ختم ہوا۔ لیکن ہم اپنے پسندیدہ لیڈروں سے معجزوں کی ہی توقع رکھتے ہیں۔ کرکٹ کی زبان میں ہم سمجھتے ہیں ہو دو سورنزمیں ہارتی ٹیم کو بھی محض دو گیندوں میں جتوانے کی معجزانہ صلاحیت کے مالک ہیں۔ انشاء جی کو سنتے سنتے ہم نے خود سے کہا۔ لوجی! 67واں سال آن لگا ہے۔ اب اٹھو کوچ کرو کہ نہ جنوں رہا اور نہ ہی پری رہی۔ اب اس دنیا میں پڑے رہنے سے کیا حاصل حصول۔ اندر سے ایک تماش بین لڑکا بولا! اوئے سرجی ابھی کوچ نہ کرنا، ابھی تو لڑائی جاری ہے۔ سونامی کارن دیکھ کر کون جیتا اور کون ہارا۔ اب بچوں کی مان کر ہم اس دنیا میں رہتے چلے جاتے ہیں۔ اب ہم بھی دیکھیںگے کہ اکیلے عمران خان کی مالی دیانت داری کیا رنگ لاتی ہے اور بہاولپور میں سونامی کیا رنگ جماتا ہے؟