• news

بیرون ملک مشرف روانگی، خواجگی اور فرزانگی

ای سی ایل سے مشروط طور پر صدر مشرف کا نام نکالنے کے فیصلے پر سندھ ہائی کورٹ کے لئے برادر خواجہ سعد رفیق نے براہ راست کچھ نہیں کہا مگر یہ ناگواری صاف کہہ رہی ہے کہ یہ فیصلہ مناسب نہ تھا مگر اس وقت حکومت پاکستان کا ایک وکیل بھی عدالت میں موجود نہ تھا۔ یہ موقع حکومت کی طرف سے عدالت کو دیا گیا کہ وہ مشرف کے حق میں فیصلہ کرے۔ اسلام آباد سے کراچی تک پورے بلکہ بھاری پروٹوکول اور سکیورٹی کے ساتھ غداری کے ملزم کو منتقل کرنے کی مجبوری کیا تھی؟ ایسی شان و شوکت تو حاضر سروس صدر پاکستان کو نہیں ملتی۔ انہیں تو بالکل نہیں ملتی۔ ”حاضر سروس“ پر غور کریں۔ یہ بھی پارلیمانی جمہوریت کا ایک حسن ہے۔ صدر ممنون جن کو ”ممنون صدر“ سمجھا جاتا ہے اور وہ ممنون ہیں وہ وزیراعظم کے ملازم ہیں۔ کئی وزیر ان سے زیادہ حیثیت کے مالک ہیں۔ چودھری نثار تو آج کل وزیراعظم سے بھی آگے اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک بھائی کو وزیراعظم اوردوسرے کو وزیراعلیٰ میں نے بنوایا ہے۔ اس میں شاید کوئی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہو؟ تلخ حقیقت تو بہرحال ہو گی؟ آج کل چودھری نثار اور نواز شریف میں تلخی اس کا ثبوت ہے؟
لوگوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب مشرف گیا۔ یہ تو پہلے دن سے طے ہے کہ ان کا بال بیکا نہیں نہیں جا سکتا۔ انہیں روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق واقعی دلیر آدمی ہیں۔ انہیں اس دلیری کی اجازت بھی مل گئی ہو گی۔ خوشی ہے کہ یہ بات کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ نواز شریف تو کرنا ہی نہیں چاہتے۔ میرے ایک کالم کے جواب میں برادرم خواجہ صاحب نے فون کیا اورکہا کہ میں مشرف کے خلاف ہوں۔ فوج کے خلاف نہیں ہوں۔ میں ان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ ان کا قائل ہوں۔ یہ بات کئی بار کر چکا ہوں کہ نواز شریف کی کابینہ میں ان سے بڑھ کر کوئی وزیر نہیں۔ میں باقیوں کو وزیر شذیر سمجھتا ہوں۔ بہت سے زیادہ نقصان نواز شریف کی پرویز رشید نے پہنچایا ہے مگر نوازش ہائے بے جا نواز شریف کی ادائے دلبرانہ ہے۔ نواز کے لئے جائز ناجائز کا خیال رکھنا ان کے نزدیک مناسب نہیں ہے۔ نواز تو ہوتا ہی نوازنے کے لئے ہے۔ اس میں حکمران ہونے کی شرط ضروری ہے اس لئے وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ یہ نوازنے کے عمل میں کبھی کبھی کوئی معرکہ آرائی بھی ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں گورنر پنجاب کے لئے چودھری سرور کا انتخاب بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ جو نواز شریف سے ہوئی ہے۔ اس میں یقیناً شہباز شریف کا کردار بھی ہو گا۔
خواجہ صاحب صدر مشرف کے خلاف دل سے بیان دے رہے تھے مگر انہوں نے نواز شریف کے دل کو اس موقع پر پوری طرح نہیں دیکھا۔ انتقام بہادری نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ ایک غیر جمہوری حکمران نے کیا کیا تھا۔ نواز شریف کا تیسری بار وزیراعظم بننا بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے بعد خواجہ سعد رفیق وزیر ہوئے ہیں۔
خواجہ صاحب نے اب فرمایا ہے کہ جو بھی مشرف کے بیرون ملک جانے میں تعاون کرے گا تاریخ اسے معاف نہیں کرے گی۔ سب سے زیادہ تعاون تو حکومت کر رہی ہے جس کا حصہ خواجہ صاحب خود ہیں۔ نواز شریف بھی کسی کو بتائے بغیر بیرون ملک گئے تھے۔ مشرف نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ میں بچ گیا۔ الحمدللہ پھر وہ پاکستان کے حکمران بھی بن گئے۔ تعاون کرنے والوں میں پہلا نمبر صدر رفیق تارڑ کا تھا۔ کلثوم نواز کا کردار تعاون سے کہیں آگے کا تھا۔ انہیں شاہد بہت پہلے ہی معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ہم توکلثوم نواز کے ساتھ تھے۔ جاوید ہاشمی بھی اور خواجہ سعد رفیق بھی۔ خواجہ صاحب نے ہاشمی کو روکا مگر کلثوم نواز کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی۔ کلثوم نواز دل سے کچھ کرتیں تو جاوید ہاشمی اس غلطی سے خود کو بچا لیتے۔ ان کو نواز شریف سے جو شکائتیں تھیں وہی شکائتیں عمران خان سے کچھ زیادہ ہیں۔ عمران کو جہانگیر ترین جیسے آدمی پسند ہیں جو بے تحاشا اخراجات کرنے والے ہیں۔ جاوید ہاشمی گھر والوں کے لئے بھی فضول خرچی نہیں کرتے۔ تاریخ کے معاف کرنے نہ کرنے کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ قوم نے نواز شریف کو معاف کر دیا ہے جبکہ ان کی حکومت ٹوٹنے پر مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ قادری چودھری برادران اور شیخ رشید آمریت کے بلے ہیں۔ وہ ذرا دھیان سے سنیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بلیوں کے لڑنے کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ کھانے کے حوالے سے آپس میں لڑتی ہیں۔ ہمیں صرف اتنا بتایا جائے کہ جنرل ضیا کی آمریت اور جنرل مشرف کی آمریت میں کیا فرق ہے؟ انہوں نے شیخ رشید پر غصہ نکالا ہے کہ کوئی بے ایمان شخص نواب زادہ نصراللہ نہیں بن سکتا۔ شیخ صاحب پر یہ غصہ اس لئے ہے کہ وہ بھی وزیر ریلوے تھے۔ میں شیخ رشید کو بہت برا نہیں سمجھتا۔ بہت اچھا بھی نہیں سمجھتا۔ جو آدمی چھ سات بار مختلف حکومتوں میں وزیر رہا ہو اس کا خمیر تو سیاست نہیں جمہوریت کو استعمال کرنے میں مضبوط ہو گا مگر اس کے ضمیر کے لئے کچھ کہنا کافی نہیں ہو گا۔ ہماری سیاست اور جمہوریت میں ایسے لوگ ہیں کچھ کر کرا کے اور کھا پی کے صاف شفاف ہو جاتے ہیں اور حکومت کے مزے لینے کے بعد اپوزیشن کے بھی وارث بن جاتے ہیں اور لوگ ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ انہیں بھول جاتا ہے کہ یہ تو مشرف کا وزیر تھا مگر مشرف کے وزیر نواز شریف کی کابینہ میں بھی ہیں تو شیخ رشید کا کیا قصور۔ یہ خواجہ سعد رفیق کو معلوم نہیں ہو گا کہ نواز شریف شیخ رشیدسے کیوں ناراض ہیں۔ کسی دوست کو بھی کوئی بات پسند نہ آئے تو وہ ہمیشہ کے لئے مردود، اور دشمن کی کوئی بات پسند آ جاتے ہیں تو وہ کابینہ میں وزیرشذیر مشرف کے وزیروں کو اپنا وزیر بنا لینے کے بعد اس کے خلاف غداری کے مقدمے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ امیر مقام اور ماروی میمن سے خواجہ صاحب کی ملاقات ہوئی تو ان کا کیا تاثر تھا۔ سمیرا ملک بھی مشرف کی چہیتی تھی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے کو بھی ٹکٹ نواز شریف نے دیا ہے۔ کیا یہ تضادات بھی جمہوریت کا حسن ہیں۔ خواجہ صاحب شیخ رشید کے لئے کہتے ہیں کہ کوئی بے ایمان شخص نواب زادہ نصراللہ نہیں ہو سکتا۔ خواجہ ”ایمان دار“ نواب زادہ نصراللہ کے لئے سب کچھ جانتے ہیں۔ اس بابائے جمہوریت نے ایک شخصیت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ یہ اختلاف بظاہر چند نشستوں پر دھاندلی سے شروع ہوا تھا۔ امریکہ نے اس تحریک کو سپانسر کیا تھا۔ قائد تحریک بابائے جمہوریت تھے۔ پھر یہ جمہوری جدوجہد تحریک نظام مصطفی بن گئی۔ نظام مصطفی کا کیا ہوا؟ شاید خواجہ صاحب کو کچھ خبر ہو۔ اس کے نتیجے میں جنرل ضیاءکا مارشل لا آ گیا۔ جنرل ضیاءکی کابینہ میں بابائے جمہوریت کا سیکرٹری جنرل بھی شامل ہو گیا۔ اور پھر ایک وزیراعظم ایک سیاستدان کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ بابائے جمہوریت نے اس کی مذمت کی؟ تو کیا اب بھی انہیں بابائے جمہوریت کہنا چاہئے۔ کیا یہی سیاسی ایمانداری ہے۔
خواجہ سعد رفیق ان کے بہر حال قائل ہیں کہ ان کی تحریک کے نتیجے میں ایک فوجی آمر جنرل ضیاءکو گیارہ سال حکومت کرنے کا موقع ملا جنرل ضیاءنے نوازشریف کو وزیراعلیٰ بنایا۔ اپنی عمر انہیں لگ جانے کی دعا کی جو منظور ہوئی۔ انکی موت کے بعد وہ وزیراعظم بنائے گئے بھٹو صاحب کا قاتل وہی ہے جو جنرل ضیاءکا قاتل ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں کو جمہوریت کی حفاظت کےلئے جان کی بازی کی سہولت تو چاہئے۔ اب کوئی ن لیگی یہ کہے کہ بھٹو صاحب کی موت کا ذمہ دار کون ہے اور جنرل ضیاءکی موت کا ذمہ دار کون ہے۔ بار بار بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا مقدمہ تازہ کرایا جاتا ہے۔ جنرل ضیاءکے ”ہوائی قتل“ کا مقدمہ کب چلے گا؟ اب خواجہ سعد بتائیں گے بے ایمان کون ہے؟ نوازشریف اور ان کے دوستوں نے بھٹو صاحب کی مخالفت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور بے نظیر بھٹو تک لے آئے۔ بی بی کی حکومت ٹوٹی اور نوازشریف کی حکومت آئی۔ نوازشریف کی حکومت ٹوٹی تو بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی۔ یہ حکومتیں سویلین آمر صدر نے توڑی تھیں۔ دو بار حکومت جانے کا کوئی افسوس نوازشریف کو نہیں مگر جنرل مشرف کو معاف کرنا جمہوریت دشمنی ہے۔ آنے والے زمانے کو اپنا زمانہ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پچھلے زمانے کی غلطیوں کو بھلایا جائے اور نیا سفر شروع کیا جائے۔
بے چاری تہمینہ دولتانہ کی خیر نہیں کہ انہوں نے کسی بھولپن میں کہہ دیا کہ مشرف کو بیرون ملک جانے دیا جائے۔ کیایہ بات تعاون کے ضمن میں آتی ہے۔ ؟ یہ بات نوازشریف کے ارادے کے مطابق ہے مگر انہیں پسند نہیں آئے گی انہوں نے دکھاوے کے لئے سپریم کورٹ میں مشرف کے لئے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی ہے مگر ایسی حکمت عملی اپنائی جائے گی کہ سپریم کورٹ کے لئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرنا پڑے گی اور کوئی بوجھ حکومت پر نہیں پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مگر عوام سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ بات آغاز میں بھی ہو سکتی تھی۔ یہ سب سیاسی افراتفری نہ ہوتی۔ مشرف باہر چلے جاتے اور کوئی بات بھی نہ ہوتی۔ مگر محاذ آرائی کی فطرت نواز شریف کو چین نہیں لینے دیتی۔ وہ معرکہ آرائی کرنا سیکھیں مگر وہ اب کوئی سبق نہیں سیکھنا چاہتے وہ صرف سبق سکھانا چاہتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن