• news

’’ضرب اُلعَضب اورضرب اُلغَضب!‘‘

وہ جو گِلہ کِیا جاتا تھا ’’ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں سے مذاکرات یا جنگ کے بارے میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک"Page" پر نہیں ہیں‘‘تو معزز قارِئین! سیاسی اور عسکری قیادتوں نے وہ گِلہ تو دُور کر دِیا ہے ۔وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر10 دہشت گردوں کے سب سے بڑے اڈّے اور شر پسندی کی جڑ شمالی وزیرستان میں آپریشن’’ ضرب اُلعَضب‘‘ شروع کر دِیا گیا ہے۔’’ اَلعَصب ‘‘ سرکارِ دو جہاں ؐ  کی تلوار/شمشیر کا نام ہے جو آپؐ  نے کُفارِ مکّہ کے خلاف لڑتے ہُوئے ’’غزوہء بدراور غزوہء اُحد‘‘ میں استعمال کی تھی۔ پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری (مرحوم ) نے غزوہ ء بدر میں مسلمانوں کی عسکری قوت کا نقشہ یوں کھینچا ہے   ؎
’’تھے اُن کے پاس  دو گھوڑے، چھ زرّہیں، آٹھ شمشِیریں
پلٹنے آئے تھے وہ لوگ دُنیا بھر کی تقدیریں!‘‘
اُن 6 شمشِیروں میں ایک شمشِیر ’’اَلعَضب‘‘ رسول اللہؐ  کی تھی۔ آج اسلامیہ جمہوریہ پاکستان عسکری لحاظ سے ماشاء اللہ کتنا طاقتور ہے؟ تو  مملکتِ خُدادادِ پاکستان پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے خواہشمند دہشت گردوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ اور اُن کے سرپرستوں کی جِن کا دعویٰ تو  یہ ہے کہ ’’پاکستان‘‘ اسلام کے نام پر قائم ہُوا تھا لیکن  یہ بانی  پاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کا احترام نہیں کرتے۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو اِن کے بزرگوں نے قائدِاعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہُوئے عوام نے پاکستان کی مخالف جماعتوں کو بھاری مینڈیٹ نہیں دِیا۔ 1970ء کے عام انتخابات سے پہلے، مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں جناب ذُوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو سیکولر جماعتیں کہا گیا ۔ بھٹو صاحب کے اقتصادی پروگرام (سوشلزم /اسلامی سوشلزم) کے خلاف تو 113عُلماء نے کُفر کا فتویٰ بھی دے دِیا تھا لیکن عوام نے اُس فتوے کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دِیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی پہلے اور دوسرے نمبر پر آگئیں۔
اصولی طور پر تو فتویٰ دینے والے 113عُلماء کو اپنی باقی عُمر یادِ الہیٰ میں گزارنا چاہیے تھی۔ مولوی اور صُوفی میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مولوی اپنے فتوے سے مسلمانوں کو دائرہ ء اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور صُوفی اپنے کردار اور پیار سے کافروں کو دائرہ ء اسلام میں داخل کر لیتا ہے۔ علّامہ اقبال ؒ صُوفی تھے اورعاشقِ رسولؐ بھی ۔ اُن کی نظر میں مسلمانوں کے صِرف ایک ہی مثالی لِیڈر تھے جناب محمد علی جناحؒ ۔جن کی قیادت میں اسلامیانِ ہِند نے اپنے لئے الگ وطن حاصل کِیا۔مسلمانوں نے جناب محمد علی جناح کو قائدِاعظمؒ تسلیم کر لیا اور بابائے قوم بھی۔قائدِاعظم  پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرح بنانا چاہتے تھے ۔ہر مذہب اور مسلک کے لوگوں کو مساوی مذہبی، سیاسی ،سماجی ا ور معاشی حقوق دے کر قائدِاعظمؒ خلیفہ ء دوم حضرت عُمر بن الخطاب ؓ کی طرح پاکستان کو ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔
قائدِاعظمؒ ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر انقلاب لائے تھے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد بھی قیامِ پاکستان کی مخالف مذہبی جماعتوں کے وارثوں نے جو سیاسی /مذہبی جماعتیں بنائیں وہ عام مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ عُلماء کی جماعتیں تھیں/ہیں۔ مذہبی لِیڈروں کی طرف سے عام انتخابات میں عام مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ’’ تُم ہمیں ووٹ دو اور ہم تُم پر اسلام نافذ کر دیں گے‘‘۔ متحدہ مجلسِ عمل میں شامل وہ تمام مذہبی جماعتیں  تھیں جن کے اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے اب بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔طالبان اور دوسرے انتہا پسند  اُن مدرسوں کی پیداوار ہیں جو قیامِ پاکستان کے مخالف عُلماء کی صُلبی اور معنوی اولاد  نے قائم کر رکھے ہیں ۔مسئلہ خالصتاً نظریاتی ہے۔ ایک طرف علّامہ ا قبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے پیروکاراور جمہوریت کے حامی لوگ اور دوسری طرف اسلحہ کے زور پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والے  انتہا پسند۔
 ’’طالبان کے باپ اور برادران ‘‘حکومت سے مذاکرات میں سنجیدہ ہوتے اور طالبان پاک فوج کے افسران /جوانوں اور معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کا قتلِ عام بند کر دیتے تو بات بن سکتی تھی لیکن کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردی کے بعد تو سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک"Page" پر ہونا ہی تھا۔
حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے دروازے تو بند ہو گئے ہیں ۔شمالی وزیرستان میں دہشت گردو ں کو ہتھیار ڈالنے اور خود کو پاک فوج کے حوالے کرنے کا موقع دِیا گیا ہے۔"Surrender Points" بنا دئیے گئے ہیں۔یہ دہشت گردوں کے لئے آخری موقع ہے ۔وزیرِاعظم نواز شریف نے ستمبر2013ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے نیویارک جاتے وقت لندن میں کہا تھا کہ ’’ صِرف ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کے بعد ہی طالبان سے مذاکرات کئے جائیں گے‘‘۔ پھِر نہ جانے کیا ہُوا ؟کہ، طالبان نے یہ دونوں شرائط تسلیم نہیں کِیں اور حکومت نے اُن سے مذاکرات شروع کر دئیے ۔ صاحب اُلعَضب‘‘ مُحسنِ انسانیت ؐ  نے فتح مکّہ کے بعد  حرم شریف، ابو سفیان کا گھر اور اپنے گھر کا دروازہ بند کر لینے والے کُفارِمکّہ کو جان کی امان دے دی تھی ۔ مولانا سمیع اُلحق 32مذہبی جماعتوں کے قائدین اور پاکستان کے200 جیّد عُلمائ، جنہوں نے طالبان  کو ’’ پاکستان کے بیٹے‘‘ قرار دیا ہیاگر وہ اپنے دروازے بند کر لیں  اور زرق برق لباس پہن کر مختلف نیوز چینلوں پرآکر عوام کو اسلام کے نام پر گمراہ کرنا چھوڑ دیں تو ،انہیں بھی معا ف کر دِیا جانا چاہئے ۔G.O.C شمالی وزیرستان آپریشن کے نِگران ہیں اور حُسنِ اتفاق سے اُن کا نام ہے  میجر جنرل ظفرؔ اُللہ خان ۔انشاء اللہ قوم کی دُعائوں سے  اُن کی قیادت میں پاک فوج کے غازی اور مُجاہد یقیناً ظفرؔیاب ہوں گے اور’’ آپریشن ضرب اُلعَصب‘‘  اسلام اور پاکستان کے دُشمنوں کے لئے ’’ضرب اُلغَضب ‘‘ بھی بن جائے گا ۔

ای پیپر-دی نیشن