ماڈل ٹائون واقعہ: وزیراعلیٰ کی درخواست پر جوڈیشل کمشن قائم‘ افسوس ہوا‘ میرا قصور نکلا تو ایک سیکنڈ میں استعفیٰ دیدونگا: شہباز شریف
لاہور (خصوصی رپورٹر + وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماڈل ٹائون واقعے کی تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کا حکم دیدیا ہے جس کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں کمشن قائم کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کوئی میرے خلاف بھی ایف آئی آر کٹوانا چاہتا ہے تو کٹوا دے، تحقیقات میں مجھے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو فورا مستعفی ہو جائوں گا، اپنے دور اقتدار میں کبھی لاٹھی اور گولی کی سیاست نہیں کی بلکہ خود ظالموں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنتا ہوں اور سیاسی مخالفین سے کبھی کسی طرح کا ناجائز سلوک روا رکھنے کا نہیں سوچا، ماڈل ٹائون واقعہ پر دل رو رہا ہے اور میں لواحقین کے غم کو سمجھ سکتا ہوں، واقعہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ ہوا ہے، سوگوار خاندانوں کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبرجمیل دے اور یہ غم برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے، وعدہ کرتا ہوںکہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات سے سامنے آنے والے حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے گا اور جب تک دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہیں ہوجائے گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔وہ یہاں ماڈل ٹاؤن میں ماڈل ٹاؤن میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے عوام سے اپیل کی کہ وہ پر امن رہیں، بلا شبہ اس اندوہناک واقعہ پر عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔ اس بات کا میرا گذشتہ 6سالہ دور شاہد ہے لیکن جو لوگ خائن ہیں، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ خواتین سے زیادتی کرتے ہیں، معصوموں پر ظلم کرتے ہیں، ان کے خلاف میں ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا ہوں اور ماڈل ٹاؤن واقعہ میں بھی جن لوگوں نے ظلم کیا ہے میں ان کے خلاف بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنوںگا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر ہم سب رنجیدہ اورغم گیر ہیں، میرا دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ بربریت کے اس واقعہ میں جن کے پیارے چلے گئے ان سوگوار خاندانوں کے دکھ میں پوری طرح شریک ہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ کس طرح ہوا، معصوم اور بے گناہ افراد کی ہلاکتیں کیسے ہوئیں، اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کے کمیشن کے قیام کا حکم دیا ہے اور جوڈیشل انکوائری کے ذریعے حقائق منظر عام پر لائے جائیں گے اور تحقیقات کے بعد اس المناک واقعہ کا جو بھی ذمہ دارہوا اس کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا ملے گی۔ میں نے خادم پنجاب کی حیثیت سے اگر اپنے کسی عزیز ترین رشتے دار کو قید کروانے میں ہچکچاہٹ محصوص نہیں کی تو اس واقعہ میں بھی ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر جنگلے ہٹانا میرا کام نہیں، یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تاہم بطور خادم پنجاب 8معصوم جانوں کے قتل پر میں عوام اور اللہ کی عدالت میں حقائق کے ذریعے جواب دینے کا پابند ہوں۔ میری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ یہ عدالتی کمیشن روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات کرے اور اگر یہ عدالتی کمیشن چند ہفتوں میں تحقیقات مکمل کر کے حقائق عوام کے سامنے لائے تو یہ چیف جسٹس کا قوم پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کوئی میرے خلاف مقدمہ درج کرانے کی خواہشمند ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ اگر عدالتی کمشن تحقیقات کے بعد اس واقعہ کا مجھے ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو میں ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر عوام کی عدالت میں حاضر ہوںگا اور ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ دے دوں گا اور جو تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آئے گا اسے من و عن تسلیم کروں گا۔ انہوں نے اگر رکاوٹوں کو ناجائز یہ غیر قانونی سمجھا ہے تو یہ ان کی ہی ذمہ داری ہے لیکن اس کی آڑ میں بربریت اور ظلم کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کوئی ظلم کرے اور سزا سے بچ جائے شہباز شریف کے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ ظلم کرنے والے کسی صورت قرار واقعی سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔ انہوں نے لاہور، پنجاب اور پاکستان کے عوام سے اپیل کی کہ اس اندوہناک واقعہ پر تحمل و برداشت سے کام لیں۔ ہائی کورٹ کے کمشن میں کسی کو پیش ہونے سے نہیں روکا جائے گا نہ کسی کو کسی کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے سے روکا جائے گا۔ اگر کوئی میرے خلاف ایف آئی آر درج کروانا چاہتا ہے تو بڑے شوق سے کروائے۔ اس سوال پر کہ واقعہ کا ذمہ دار ضلعی پولیس افسر ہے، صوبائی پولیس افسر ہے یا وزیراعلیٰ، میاں شہباز شریف نے جواب دیا کہ عدالتی کمشن اس لئے ہی بنایا گیا ہے کہ وہ ذمہ داری اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس جو رپورٹ ہے اس کے مطابق 97 افراد زخمی ہیں جن میں سے 52 سویلین ہیں اور 28 پولیس والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا قوم سے وعدہ ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف بے لاگ کارروائی ہوگی۔ قبل ازیں جوڈیشل انکوائری کیلئے پنجاب حکومت کی درخواست ہائی کورٹ کو موصول ہوئی جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں انکوائری کمشن تشکیل دیدیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی درخواست پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمشن تشکیل دیدیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق انکوائری کمشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کریگا۔ جوڈیشل کمشن ایک رکنی ہو گا جسٹس علی جعفر نجفی ایک ماہ میں تحقیقات کر کے سفارشات حکومت کو دے گا۔ وزیراعلیٰ نے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 30 لاکھ فی کس امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے زخمیوں کو بھی مفت اور بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔