لاہور کے ڈی سی او صاحبان کا آنا جانا
لاہور کے نئے ڈی سی او کیپٹن (ر) محمد عثمان کی طرف سے اتوار بازاروں میں چھاپہ مارنے، ناقص سکیورٹی انتظامات کے بارے میں ٹائونوں اور مارکیٹ کمیٹی کے افسران پر شدید برہمی کا اظہار کرنے کی خبریں اس طرح شائع ہوئی ہیں جس طرح ان سے پہلے کے ڈی سی او صاحبان ڈاکٹر احمد جاوید قاضی، نسیم صادق، رضوان محمود، نور الامین مینگل اور احد حیمہ اور سجاد بھٹہ کے دور میں شائع ہوتی تھیں، تمام اعلیٰ افسران سچ مچ عوام کو صحیح اشیا، معقول نرخوں پر مہیا کرنے کے ضمنی بھی رہے اور دل سے کوششیں بھی کرتے رہے مگر چھاچھ میں مدھانی کے بار بار گھمانے سے کچھ حاصل کیسے ہو سکتا ہے، مارکیٹ کمیٹی والے اور اتوار بازاروں سے مکھن نکالنے والے حکمران ہیں ورکر جیسے پہلے ڈی سی او صاحبان کو دورے کرواتے رہے ہیں اور اپنا بزنس چلاتے رہے ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی چلتا رہے گا نہ پھر لاہور میں صرف اتوار بازار ہی تو مسئلہ نہیں ہیں، کیپٹن(ر) محمد عثمان بہت پر جوش معلوم ہوتے ہیں۔ ان سے پہلے کے پر جوش افسروں نے اتوار بازاروں میں کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں کیا تو کچھ نہ کچھ کام ایسے ضرور کئے ہیں کہ لوگ انہیں یاد کرتے رہیں گے۔مثلاً سجاد بھٹہ اور احد چیمہ نے لاہور کی بہت سی پوش آبادیوں بڑے بڑے آہنی گیٹ لگا کر راستوں کو بند کرنے کا نوٹس لیا اور تمام گیٹ ختم کروا دیئے، وہ میٹرو بس منصوبے کے حوالے سے بھی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر کے گئے ، ایل ڈی اے میں اب تمام پلاٹوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا چیلنج انکے سامنے ہے، تجاوزات کے خاتمے کیلئے نور الامین مینگل نے کوششیں شروع کیں لیکن ان کا اصل کام بہت سے اتوار بازاروں میں با ضابطہ آہنی اسٹرکچر کا قیام، دکانداروں کیلئے دائمی ڈیسک اور بعض سکیورٹی اقدامات تھے ،رضوان محمود ، نسیم صادق اور ڈاکٹر احمد جاوید قاضی بھی اپنے جانے والے افسران کی طرح تجاوزات کے خاتمے ، ڈینگی کے خاتمے اور لاہور میں میاں شہباز شریف کے تعمراتی میگا پروجیکٹوں کیلئے مسلسل مصروف رہے ، مگر کرکٹ ٹیم کے کپتانوں کی طرح انکے سر پر تبادلے کی تلوار لٹکتی رہی اور شاید اس بات کا فائدہ وہ عناصر اٹھاتے رہے ہیں جن کو قبضہ گروپ بھی کہا جاتا ہے مہنگائی کے بھوت بھی کیا جاتا ہے اور دفتری سرخ فیتا کا نام بھی دیا جاتا ہے، دوسرے دفاتر کی تو ایک بات ہے خود ڈی سی او آفس میں ماتحتوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہتی ہے جس کی زندہ شکالیں موجود ہیں اس پس منظر میں یہ سوال ان دنوں بہت کیا جا رہا ہے کہ لاہور میں بار بار ڈی سی او صاحبان کا تبادلہ کیوں ہو رہا ہے، کیا ڈی سی او صاحبان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی ہے یا پھر وزیر اعلیٰ تو چن چن کر دیانتدار اور محنتی افسران کا انتخاب کرتے ہیں مگر صوبے اور خاص طور پر لاہور کے منہ زور سیاسی عناصر یا سماجی لٹیرے ،ذخیرا اندوز ،بڑے بڑے تجاوز کندگان یاد خفیہ طاقتیں افسروں کو زیادہ دیر ٹکنے نہیں دیتیں، ایک مسئلہ خود انتظامیہ کے اندر پی ڈی ایم جی گروپ ،پی سی ایس افسران چپقلش ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے نئے دور میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے کل چھ برس کے اقتدار میں صرف سجاد بھٹہ کو ٹک کر کام کرنے کا موقع ملا اور جب موقع ملا تو انہوں نے کام کر کے بھی دکھایا ان کے دور میں یا ان کی کارکردگی کے باعث لاہور میں میاں صاحبان کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا تھا۔لاہور کے نئے ڈی سی او کے آتے ہی دورے اور چھاپے بتا رہے ہیں کہ وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں ،اگر ایسا ہے تو وہ صرف تجاوزات سے لاہور کو پاک کر دیں تو سمجھا جائیگا کہ انہوں نے بہت کچھ کر لیا ہے، مہنگائی ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی سب کچھ اپنی جگہ ایک عذاب ہے مگر تجاوزات سب سے بڑا عذاب ہے کہ اب شہریوں کی موومنٹ دائو پر لگی ہے اور تجاوزات کا تو یہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ ، چوک نیلا گنبد میں تاجروں کی تجاوزات عزیز بھٹی ٹائون آفس اور سول سیکرٹریٹ کے درمیان کی آبادیوں میں سرکاری زمینوں پر دکانیں اور مکانات بنے ہیں، ایک موریہ دو موریہ پل سے ملحقہ سڑکوں پر ،شاد باغ ،مین شاہراہ پر اردو بازار کے چاروں طرف ،مین لنک روڈ تا تاجپورہ سکیم، مین بازار ٹائون شپ غرض جہاں جہاں متعلقہ ٹائونوں نے دکھاوے کی کارروائی کی ٹھیک دو ہفتوں کے بعد پہلے سے بد تر صورتحال سامنے آ گئی ، تجاوزات کے خاتمے کے فالو اپ کے کور پر ایک ٹرک، دو ٹرک سامان اٹھانا واپس کرنا پھر اٹھانا اور کچھ لے دیکر واپس کرنا اب ایک مذاق اور اس سے آگے بڑھ کر کاروبار بن گیا ہے۔