طاہر القادری اور مظفر وارثی کی خود نوشت میں سے
عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے اعلان کیا ہے کہ وہ 23جون کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور اس وقت تک پاکستان میں رہوں گا جب تک انقلاب کی تحریک اپنی منزل حاصل نہیں کر لیتا۔ ادھر حکومت بھی اپنے انداز میں طاہر القادری کے ’’خیر مقدم ‘‘ کی تیاری کر رہی ہے جس کے تحت وہ برطانیہ اور کینیڈا کی حکومتوں کو عوامی تحریک کے سربراہ کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں باہمی تعاون کی درخواستیں بھیج رہی ہے۔طاہرالقادری کی خود نوشت کا ایک باب ایک رسالے میں 2004ء کو شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ روز اول سے میں نے عہد کیا تھا کہ اپنی تحریک اور مشن کے سلسلے میں مجھے جو رقم ملی اس سے چائے کا ایک کپ اور کھانے کا ایک لقمہ تک نہ کھاؤں گا۔ میرے اور میری اولاد کے خون کا ایک قطرہ بھی منہاج القرآن یا پاکستان عوامی تحریک کی رقم سے نہیں بنا۔میں نے نہ کوئی اکاؤنٹ اپنے نام رکھا‘ یا اپنے خاندان کی ملکیت میں دی اور نہ پوری دنیا میں ایک روپے تک کی کوئی جائیداد بنائی۔ یہ سارا کام اللہ کیلئے تھا، اور اللہ ہی کیلئے ہوگا۔ اسی لئے خدائے برتر نے میرے مشن میں برکت ڈال دی۔
1981ء ہی سے میں نے طے کر لیا تھا کہ اپنی تمام تصانیف اور خطابات کی ریکارڈ شدہ کیسٹوں کی فروخت سے کوئی رقم بطور رائلٹی یا کمیشن نہیں لوں گا اور دنیا بھر میں ان کی فروخت سے حاصل ہونیوالی آمدنی منہاج القران کے ذریعے اشاعت دین کیلئے وقف ہوگی۔ یہ معمول آج تک قائم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں رقوم میں سے ایک تہائی یا چوتھائی حصہ بھی لیتا تو کئی لاکھ روپے ماہانہ آمدنی گھر آتی لیکن میں نے اپنے مشن کے قیام کے ساتھ دنیا کے سارے سودے منسوخ کر دئیے۔ اللہ اور اسکے رسولؐ کے ساتھ اخروی سودا کر لیا۔ میری ہر کتاب کے پہلے صفحہ پر چھپا ہوتا ہے ’’آدمی خود کو پال لے یا اپنے مشن کو‘‘ وہ دونوں کو بیک وقت نہیں پال سکتا۔یہ تو تھا طاہرالقادری کا موقف اب حکومت ان کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تحقیقات کے بعد ہی علم ہو سکے گا کہ طاہرالقادری نے آج سے دس سال پہلے جو کہا وہ درست ہے یا غلط مظفر وارثی ممتاز شاعر اور نعت گو تھے۔ طویل عرصہ ’’نوائے وقت ‘‘ میں ان کا قطعہ شائع ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ وہ پاکستان عوامی تحریک سے وابستہ رہے۔ اس دوران انہیں طاہر القادری کے قریب ر ہنے کا موقع ملا۔مظفر وارثی کی خود نوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ 2000ء میں شائع ہوئی یعنی طاہرالقادری کی خود نوشت سے چار سال قبل۔مظفر وارثی نے’’ہم اور پاکستان عوامی تحریک‘‘ کے باب میں لکھا ’’ لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہ چند بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔ بظاہر طاہر القادری صاحب آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی کو ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکھتے تھے لیکن بہت پہلے ہم نے محسوس کر لیا تھا کہ تنقید زیادہ آئی جے آئی یعنی نوازشریف پر کی جاتی ہے۔ مذکورہ جلسے میں انتہا کردی گئی تو ہم سے چپ نہ رہا گیا۔ گاڑی میں بیٹھے ہی ہم نے حضرت صاحب سے سوال کیا کہ آپ تو دونوں کو ایک کٹہرے میں کھڑا کرتے تھے‘ آج تو کٹہرا بھی ایک تھا ملزم بھی ایک‘ فرمانے لگے‘ وارثی صاحب! بے نظیر تو ہے ہی کھلی بے دین، منافق نوازشریف ہے اور منافق زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ طاہر صاحب منافق اسے کہہ رہے تھے جو اپنے کندھوں پر بٹھا کر انہیں غار حرا تک لے گیا تھا۔ جو لوگ جا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اپنا وجود لے کر اس پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ کندھوں پر کسی کو لاد کر‘ جس نے غیر ممالک میں جی کھول کر انہیں شاپنگ کرائی۔ جس کے سیکرٹریٹ میں انکی فائل کھلی تھی۔ حضرت صاحب کے تمام احکامات اس میں درج ہوتے اور باری باری ان پر عمل کیا جاتا۔ اس نواز شریف کو نشانہ تضحیک بنایا جا رہا تھا جس سے بہنوں کے نام پر پلاٹ الاٹ کرائے۔ سالے کو نائب تحصیلدار اور بھانجے کو اے ایس آئی بھرتی کرایا گیا تھا۔ وہ نوازشریف جس کے باپ سے رانا جاوید القادری نے نقد سولہ لاکھ روپے لاکر حضرت صاحب کے سامنے ڈھیر کر دیئے تھے۔ میاں شریف شادمان سے انہیں اتفاق مسجد لے گئے اور اتفاق مسجد سے آسمان پر جا بٹھایا۔ گاڑی دی‘ مکان دیا‘ چالیس طالب علموں کی اکیڈمی کا سارا خرچ برداشت کرتے۔ حضرت پیر سیّدنا علائوالدین گیلانی کی آمد پر حضرت صاحب نے اپنی کوٹھی پر میاں شریف صاحب سے تین لاکھ روپے اس کی تزئین و ارائش پر خرچ کرا دیئے ۔ میاں شریف صاحب کو طاہرالقادری تلقین فرمایا کرتے ’’آپ دنیا خرچ کریں ہم دین خرچ کریں گے‘‘ میاں محمد شریف کو اپنا باپ کہنے والا اب انہیں فرعون کہتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اگر میں نے میاں صاحب سے فائدے اٹھائے تو کون سی قیامت آگئی۔ حضرت موسیٰؑ بھی تو فرعون کی گود میں پلے تھے۔ اپنے دفاع میں طاہرالقادری پیغمبر سے کم تو بات ہی نہیں کرتے۔ ایک جگہ ایک وکیل نے اعتراض کیا کہ آٹھ دس گن مین لے کر چلنے کی کیا ضرورت ہے؟ جواب عطا ہوا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی حفاطت بھی ان کے سرفروش اس طرح کیا کرتے تھے۔ کہاں عاشق، کہاں تنخواہ دار ملازم‘‘
قارئین ! آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری اور مظفر وارثی کی خود نوشت میں سے اقتباس ملاحظہ کئے۔
23 جون کو بھی آپ ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب سن اور پڑھ لیں گے۔ اسکے بعد فیصلہ کریں۔ حق سچ آپ کے سامنے آجائے گا۔