ضرب عضب ۔۔۔کیاحکمران سنجیدہ ہیں؟
سرے محل آج پھر خبروں میں ہے۔ آصف علی زرداری نے1990ء میں کرپشن کی داستانوں کا عنوان بنے تو سرے محل خریدنے کا چرچا زوروں پر تھا۔ اُس وقت زرداری صاحب اسکی ملکیت سے انکار کردیاتو انکے ساتھیوں نے سری محل سے لاتعلقی کے حق میں دلائل کے ڈھیر لگا دئیے تھے۔ گویا یہ محل کسی نے زرداری صاحب کے گھر کے آنگن میں رات کے اندھیرے میں لا کے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح مخدوم امین فہیم کی جیب میں کوئی 18کروڑ روپے ڈال گیا اور ان کو خبر نہ ہوئی ۔2014ء میں حالات کو ساز گار دیکھ کر زرداری صاحب نے اعتراف کر لیا کہ سرے محل ان کی ملکیت ہے۔ایک بار پھر انکے حامی میدان میں آئے اور اپنے ہی دلائل کی نفی میں دلائل کا ہمالہ کھڑا کر دیا۔ اب شہید بینظیر بھٹو کے شوہر نامدار سرے محل کو فروخت کررہے ہیں۔360 ایکڑ اراضی پر مشتمل راک وْڈ سٹیٹ یعنی سرے محل 1910 میں تعمیر کیا گیا، جس میں ایک ہوائی پٹی بھی شامل ہے۔اس محل کی 4جولائی کو نیلامی ہورہی ہے ۔ بولی اندازاًایک کروڑ پاؤنڈ ہے سے شروع ہوگی ۔
مسلم لیگ ن کی حکومت اور قیادت نے دہشت گردی کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے کرنے کا عزم ظاہر کیا تو انکے حامیوں اور ساتھیوں نے مذاکرات کی افادیت ظاہر اور ثابت کرنے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ اب اپریشن کا فیصلہ ہوا تو مذاکرات کے حق میں حکمران اور حکومتی حامی جس جوش و خروش سے دلائل اور بیان دیتے رہے اب اس سے زیادہ ولولے سے اس کی نفی میں دلیلیں کھڑی کر رہے ہیں ۔ خدا ایسے حامیان سے قوم کو بچائے۔ مسلم لیگی یا پی پی قیادت اگر ملکی ترقی و خوشحالی کے نام پر ایٹم بم کی نیلامی کا قصد کر لے تو حامیان اسے عظیم تر کازاور فیصلہ کرنے والوں کو عظیم ترین قائد ثابت کر دینگے۔حکومت بلامبالغہ یہ کہتی رہی کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپریشن کا آپشن اختیار کریں گے لیکن اپریشن پر حکومت آمادہ نظر نہیں آتی تھی۔اب جس قوت نے اپریشن کا فصلہ کیاکراچی ائرپورٹ پر دہشتگردی سے اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ اپریشن کا فیصلہ کس نے کیا، حکومت بجا طور پر اس کا کریڈٹ لے رہی ہے لیکن اپریشن کا اعلان فوج کی طرف سے یہ کہہ کر کیا گیا کہ حکومت کی ہدایت پر اپریشن شروع کر دیا گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ضرب عضب کی حامی اور اسکی کامیابی کیلئے پرعزم ہے؟ فوج توضرب عضب کی کامیابی کیلئے پہلے سے کہیں بڑھ کر قربانیوں کیلئے تیار ہے۔ فوج نے پہلے بھی اپریشن کئے۔فوج نے آپریشن راہ حق سوات 2007 ، صراط مستقیم خیبر ایجنسی2008، شیر دل باجوڑ2008، بلیک تھنڈر سٹارم بنیر 2009، راہ راست سوات 2009اور آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان 2009 میں کامیابی حاصل کی ۔
کل سرراہ سوات کے پڑھے لکھے نوجوان بشیر خان سے ملاقات ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ سوات کو دوسرے علاقوں سے آنیوالے جنگجوئوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ فوج نے اپریشن کیا تو مقامی لوگ فوج کے ساتھ تھے اس پر شدت پسندوں کو بھاگنا پڑا۔ اپر دیر میں گھسے ہوئے شدت پسندوں کو مقامی لوگوں نے خود نکال باہر کرنے کا فیصلہ کیا اور متحد ہو کر کسی کو مارا، کسی کو بھگایا اور علاقے کو اس مخلوق سے پاک کر کے دم لیا۔ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی بڑی تعداد کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ وہاں ہر آدمی جنگجو، شدت پسند اور دہشت گرد نہیں ہے۔ اکثریتی آبادی پرامن لوگوں پر مشتمل ہے۔ جہاں فوج کو کڑے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کامیابی کیلئے مقامی لوگوں کو ہر صورت ساتھ ملانا ہو گا۔اپریشن کی کامیابی کیلئے صرف شمالی وزیرستان کے پرامن لوگوں ہی کو نہیں ہر پاکستانی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ آج عمران کی تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی اور قابل ذکر مذہبی جماعت نے ضرب عضب کی حمایت کی ہے۔ سراج الحق چیں بجیں نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی خدشات لاحق ہیں۔مولانا کی حمایت اور مخالفت نوٹوں میں تُل جاتی ہے ۔ سراج الحق سمجھانے پر سمجھ جائینگے۔دہشت گرد اب اپریشن کے علاقوں سے نکل کر شہروں کا رخ کرینگے جہاں ان کو پناہ ملتی رہی ہے وہ بارودی گاڑیاں مقامی لوگوں کی مدد سے تیار کرکے خونریزی کرتے رہے ہیں۔ اگر ان کو پناہ دی جاتی رہی تو ملک بارود کا ڈھیر بنا رہے گااور ضرب عضب کے دیرپا نتائج سامنے نہیں آ سکیں گے۔ قوم کی طرف سے ضرب عضب کی کامیابی میں یہی کردار ہے کہ وہ اپنی بستیوں میں کسی اجنبی کو نہ گھسنے دیں۔
حکومت اگر ضرب عضب کی کامیابی میں اپنے اعلانات و بیانات کیمطابق سنجیدہ ہے توجن دہشتگردوںکو عدالتوں سے پوری تحقیق اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد سزائیں ہو چکی ہیں ان پر عمل کر دے۔ شدت پسندوں کی طرف سے انکی مخالفت کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اب جبکہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف اپریشن کا کریڈٹ لے رہی ہے اور یقیناً ان کو دشمن سمجھ کر ہی فوج کو انکے سامنے کھڑا کیا ہے تو دہشت گردوں کے حامیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کیا وہی سلوک نہیں ہونا چاہئے جو دہشت گرد فوج کے حامیوں اور اپنے مخالفوں کیساتھ کرتے رہے ہیں؟ کیا مسلم لیگ کی حکومت ایسا کرنے کی ہمت کریگی؟ حکومت نے اگر اپریشن کے اعلان کا کریڈٹ لیا ہے تو پوری ایمانداری سے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرے ۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت اپریشن کیلئے پُرجوش ہوتی تو وزیراعظم قوم سے خطاب کرکے اسے اعتماد میں لیتے۔انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے بیانات کے پھوکے فائر کئے ہیں۔ حکمرانوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ فوج ہر بڑے شہر میں پہنچ چکی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد آمد ہے۔پولیس نے لاہورمیں انکے 7کارکن مار ڈالے، اس سیاسی فضا ء مزیدگھمبیر ہوگی ۔ طاہرالقادری نے اپنی آمدپراسلام آباد بینظیر بھٹو ائرپورٹ پر فوج کی سکیورٹی مانگی تھی ۔ انکے اس مطالبے کا حکومتی حلقوں نے مذاق اُڑایا لیکن فوج نے انہیں سیکیورٹی فراہم کر دی ہے۔ آج بینظیر بھٹو ائرپورٹ سمیت تمام ہوائی اڈے فوج کے کنٹرول میں ہیں اور اڈیالہ سمیت بڑی جیلوں کی سکیورٹی بھی فوج کے پاس ہے۔ شیخ الاسلام جیل گئے تو بھی فوج کی کسٹڈی میں ہونگے۔ قادری صاحب کے کچھ حامی اس خوش گمانی کا اظہار کررہے ہیں کہ فوج کی نگہبانی میں طاہرالقادری کو قوم کی پاسبانی کا منصب بھی سونپا جا سکتا ہے۔