آپریشن کے ردعمل میں ممکنہ حملوں سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں: تجزیہ کار
اسلام آباد (رائٹرز) پاک فوج نے افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے جس کے ردعمل میں دیگر شہروں میں ممکنہ انتقامی حملوں سے شدت پسندوں پر فتح حاصل کرنے میں مشکل پیش آئیگی۔ امریکہ طویل عرصے سے اس آپریشن کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا لہٰذا پاکستان کو آپریشن کے حوالے سے واشنگٹن کی بھرپور تائید حاصل ہو گی مگر اصل چیلنچ یہ ہے کہ پاک فوج کو اس آپریشن میں طویل عرصے تک سرگرم رہنے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ قبائلی علاقوں کے لوگوں نے ہمیشہ کسی بھی حملہ آور فوج کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ فوج کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ آپریشن کی کامیابیاں پنجاب کے میدانوں میں نقصان کی صورت میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو عوام کے خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ طالبان سے ہمدردی رکھنے والے افراد یہ کہیں گے کہ ہم پہلے ہی ایسا کہتے تھے۔ کراچی ائر پورٹ پر حملے کے بعد پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجیوں کی تعداد دوگنا کر کے 80 ہزار تک کر دی ہے۔ اب تک فوج نے صرف فضائی حملے کئے ہیں، زمینی آپریشن ایک ہفتے بعد شروع ہو گا جب فوج آبادیوں میں آپریشن شروع کریگی۔ اس نوعیت کے آپریشن کی کامیابی امریکی مداخلت کے بغیر مؤثر نہیں ہو گی۔ افغانستان میں موجود امریکی فورسز کے پاس شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں بھرپور انٹیلی جنس معلومات ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس آپریشن کے آغاز کی وجہ سے بہت سے شدت پسند افغانستان چلے جائیں گے اور ممکنہ طور پر طالبان کی بڑے سربراہوں کے سرحد پار کر جانے کا بھی امکان ہے۔ گراؤنڈ آپریشن کے آغاز کے بعد انٹیلی جنس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن کی کمی پر بھی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے کہا کہ علاقے کو خالی کرانا مشکل کام نہیں بلکہ آپریشن کے بعد پیدا ہونے والے حالات مشکل کا باعث ہو سکتے ہیں کیونکہ ان شدت پسندوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملک بھر میں موجود ہیں۔