پارلیمنٹ میں سکھ مظاہرین کے داخلے پر جوڈیشل انکوائری کا حکم، وفاقی پولیس دنیا کی بے حس پولیس ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پارلیمنٹ میں سکھ مظاہرین کے داخلے پر جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کرتے ہوئے سیشن جج اسلام آباد (ویسٹ) راجہ جواد عباس کو انکوائری افسر مقرر کردیا‘ عدالت نے ذمہ داران کیخلاف انکوائری رپورٹ پندرہ دن کے اندر عدالت میں طلب کرلی‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی اسلام آباد کے تھانہ میں داخل نہیں ہوسکتا لیکن اتنی بڑی تعداد میں سکھ مظاہرین پارلیمنٹ میں گھس گئے‘ اسلام آباد پولیس دنیا کی بے حس پولیس ہے‘ سکھوں کے پارلیمنٹ میں داخلے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں‘ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ان لوگوں کو یہاں تک لایا گیا‘ ذمہ داران کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی‘ بے قصور لوگوں کو برطرف کردیا گیا۔ پارلیمنٹ ہائوس میں احتجاجی سکھوں کے داخلے پر معطل ہونیوالے ڈی ایس پی محمد حسین لاسی اور ایس پی سکیورٹی حبیب اللہ نیازی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بنچ کے روبرو ایس پی سٹی مستنصر فیروز اور اسسٹنٹ کمشنر نعمان یوسف اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ایسٹ اسلام آباد کیپٹن (ر) عبدالستار عیسانی پیش ہوئے۔ عدالت نے اسسٹنٹ کمشنر سے پوچھا کہ حسن ابدال سے اسلام آباد تک مظاہرین کیسے پہنچے اور کس نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دی۔ جس پر نعمان یوسف نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں داخلے کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسسٹنٹ کمشنر سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ایک حساس ترین شہر ہے جہاں لوگوں کو گھومنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن اتنی بڑی تعداد میں سکھ مظاہرین حسن ابدال سے پارلیمنٹ کے اندر چلے گئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ ٹیلیفون کرکے سکون سے دفتر میں سوگئے۔ عدالت نے ایس پی سٹی مستنصر فیروز سے پوچھا کہ ریڈ زون میں کس طرح سکھ مظاہرین داخل ہوئے۔ ان لوگوں کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کی ذمہ داری کس کی بنتی ہے جبکہ ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ عدالت نے پولیس افسران و دیگر کے بیانات مکمل کرنے کے بعد ریمارکس دئیے کہ جب تک جوڈیشل انکوائری مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک کوئی بھی برطرف آفیسر بحال نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔