فوجی آپریشن کے خلاف سازش کامیاب ہو گئی
پچھلے تین دنوں سے ہر چینل اور ہرا خبار پر سانحہ ماڈل ٹائون حاوی ہے، لوگ بھی آپس میں اسی سانحہ پر بات کرتے ہیں۔اس سانحہ میں گیارہ افراد شہید ہوئے، کچھ شدید زخمی ہیں، کافی لوگ گرفتار ہیں یا غائب کر دیئے گئے ہیں۔کوئی اسے جلیانوالہ والا باغ سے تشبیہہ دے رہا ہے، کوئی گولڈن ٹمپل پر یلغار کو یاد کر رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ سانحہ اپنی تما تر سنگینی کے باوجود اس لائق نہیں کہ ہم لوگ اس کی لکیر کو پیٹتے چلے جائیں، بہت سینہ کوبی ہو چکی، میں ڈاکٹر طاہر القادری سے براہ راست التماس کروں گا کہ وہ اس سانحہ کو بھول جائیں، وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ سفاک اور خونیں کھیل صرف اس لئے کھیلا گیا کہ قوم اپنی بہادر افواج کی قربانیوں کو بھول جائے، ہماری ساتویں کور شمالی وزیرستان میں آپریشن عضب کی آزمائش سے دوچار ہے، یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں کور کمانڈر کا اپنا لخت جگر بھی سنگلاخ چٹانوں ، عمودی گھاٹیوں اور تہہ در تہہ سرنگوں کے اندر رزم نامے میں کود چکا ہے۔ قوم کی لاکھوں مائوں کے لخت جگر اور بہنوں کے ویر بھی اپنا آج ہمارے کل پر قربان کرنے کے لئے میدان جنگ میں داد شجاعت دے رہے ہیں۔انہیں ہماری دعائیں چاہیئں، ان کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے، ان کی کمر تھپتھپانے کی ضرورت ہے۔
دیہات میں فصل کی کٹائی کے دوران کسی کسان کی ماں مر جائے تو اس کی لاش بھڑولے میں رکھ دیتے ہیں کہ کٹائی سے فارغ ہو لیں تو اس کے کفن دفن کا بندو بست کر لیں گے۔میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملتمس ہوں کہ وہ سر دست، کچھ عرصے کے لئے لاشوں کو بھول جائیں، پاک فوج کے جوان اور افسر آخری معرکے سے سرخرو ہو جائیں تو ان لاشوں کو پورے قومی اعزازکے ساتھ دفن کیا جائے گا، انہیں اکیس توپوں کی سلامی پیش کی جائے گی، انہیں شجاعت کے تمغوں سے نواز جائے گا اور ان کے شاہنامے لکھے جائیں گے۔اور آسمانوں سے اترنے والے فرشتے ان نفوس قدسیہ کا جوق در جوق استقبال کرتے نظر آئیں گے۔
کون نہیں جانتا کہ ماڈل ٹائون کا آپریشن در اصل پاک فوج کے آپریشن عضب کے خلاف ایک سنگین سازش ہے جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو چکی، لوگ فوجی ا ٓپریشن کو بھول گئے اور ایک سڑک سے رکاوٹیں ہٹانے اور چند گاڑیوں کے شیشے توڑنے پر ساری توجہ مر کوز کر بیٹھے، یقین کیجئے، ماڈل ٹائون سازش کا مقصد بھی یہی تھا جو کہ پورا ہو گیا۔ ضروری نہیںکہ ماڈل ٹائون آپریشن میں لاہور پولیس نے حصہ لیا ہو، یہ بھی ضروری نہیں کہ اس آپریشن کا حکم شہباز شریف یا رانا ثنا للہ یا حمزہ شہباز یا مریم صفدر نے دیاہو، غالب امکان یہ ہے کہ طالبان کے جتھوںنے پولیس کی وردیاں پہن لی ہوں اور شاہداللہ شاہد یا مولوی فضل اللہ اس آپریشن کی کمان کر رہے ہوں، ظاہر ہے انہوںنے ہی دھمکی دی تھی کہ وہ لاہور کو راکھ کر دیں گے ۔اور انہی کو آپریشن عضب کارنج اور دکھ تھا ، وہی اس کاانتقام لینے کی پخت و پز کرسکتے تھے۔ ہم خوا مخواہ ایک دوسرے پر بہتان باندھ رہے ہیں اور معزز عدلیہ کابھی وقت ضائع کر رہے ہیں کہ وہ اس سانحہ کی تحقیقات کرے۔
ویسے کھرے کا پیچھا کیا جائے تو کوئی اور کہانی سامنے آتی ہے۔ وزیر اعظم کی ایک سال تک یہی کوشش نظر آئی کہ دہشت گردوں کے خلاف آ پریشن نہ ہو، انہوںنے پارلیمنٹ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک جرگہ بلایا، ایک شہنشاہ کی طرح دربار سجایا اور قومی نو رتنوں کے منہ سے کہلوایا کہ امن کے قیام کے لئے مذاکرات ہونے چاہیئں،مذاکرات کایہ ڈرامہ بھی چلتا رہا اور دہشت گردوں کی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔ مذاکرات کی منطق بگھارنے والے یہ کہتے سنائی دیئے کہ ہر جنگ کے بعد مذاکرات کرنے پڑتے ہیں تو کیوںنہ ہم پہلے ہی مذاکرات کرلیں، کسی نے ان سے نہ پوچھا کہ کیا پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم مذاکرات کے ذریعے ختم ہوئی، کیا جنگ بدر، جنگ احد کے بعد مذاکرات کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا تھا۔ بس کچھ لوگوں نے مذاکرات کے بہانے اپنا الو سیدھا کرنا تھاا ور وہ وزارتیں، مشاورتیں لے اڑے۔
قوم نے دیکھا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کے مائیک پر آئے ، ان کا چہرہ اڑا ہوا تھا، ان کے ہاتھ میںچند کاغذ تھے جن کوپڑھنے کی کوشش میں وہ تھتھیا رہے تھے۔ان کی باڈی لینگوئیج سے ہر گز اندازہ نہیں ہو پارہا تھا کہ وہ کسی دشمن کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں ، لوگوںنے چرچل کی تقریریں سنی ہیں ، بش اور اوبامہ کی سنی ہیں، ایوب کی بھی سنی تھی مگر یہ تقریر نہیں تھی کچھ اور ہی تھا، وزیر اعظم نے کاغذوں کو الٹ پلٹ کیا،لگتا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کا اسٹاف نہیں ہے جو انہیں یہ کاغذ کسی فائل ہی میں لگا کر دے دیتا، یہی کچھ وزیر اعظم نے صدر اوبامہ کے سامنے کیا تھا، چٹیں دیکھتے گئے اور کچھ نکات بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے، دنیا میں ایک سے ایک خوبصورت نوٹ پیڈ ملتے ہیں، وزیر اعظم کو کسی نے خرید کر نہیں دیا، خود وزیر اعظم کومہنگی کاریں خریدنے کا شوق ہو گا اور اچھی اسٹیشنری کا ذوق نہیں ہو گا تو فواد حسن فواد کو کیا پڑی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے لئے شایان شان ا سٹیشنری خریدیں۔بہر حال وزیر اعظم نے پہلے قومی اسمبلی کو بھگتایا اورپھر اسی تقریر کی برکت سے انہوںنے پہلی بار سینیٹ آف پاکستان میں قدم رنجہ فرمائے۔دس منٹ انہوںنے وہاں لگائے ہوں گے ، پھر لائیو کیمرے آف ہو گئے ا ور کچھ پتہ نہیں کہ کسی ایوان میں اپنی تقریر پر بحث انہوںنے سنی یا نہ سنی، سن بھی لیتے تو انہوں نے سنی ان سنی کر دینا تھا۔وزیر اعظم نے تقریر کی رسم پوری کی ا ور اگلے روز بیرونی دورے پر روانہ ہوگئے ، ملک میں جنگ کا اعلان کر کے انہوںنے جیسے اپنے کان لپیٹ لئے ہوں۔ بیرونی دورے پر جنرل راحیل شریف کو بھی جانا تھا لیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر انہوں ے اپنا سری لنکا کا دورہ منسوخ کر دیا۔ مگر وزیر اعظم حسب پروگرام تاجکستان چلے گئے۔ یہ ملک پاکستان کے لئے کسی اسٹریٹجک یا بزنس اہمیت کا حامل نہیں ہے ، ممکن ہے ، سووئت روس کی افواج اپنی ہزیمت کے دوران یہاں اسکریپ کے ڈھیر چھوڑ گئی ہوں ، ان دنوں اس اسکریپ کی پاکستان میں ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے، ہر شہر میںمیٹرو بسیں اور میٹرو ٹرینیں، جن پر بسیں اور ٹرینیں کم چلتی ہیں لیکن ان کی تعمیر کے لئے سریے کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے، کسی نے سریے کے تودے دیکھنے ہوں تو لاہور کی چونگی امرسدھو یا مینار پاکستان چوک میںا ٓ کر دیکھے۔ براہ کرم پنڈی اور ملتان والے زحمت نہ کریں، یہ تماشہ ان کی دہلیز پر چند ہفتوںمیںلگ جائے گا۔
اب میں قوم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ وہ سیاسی مداریوں کے تماشے پر دھیان نہ دے ، اس قیامت کا تصور کرے جس کا سامنا ہماری مسلح افواج کو ہے۔وہ ایسے دشمن کو ملیا میٹ کرنے میںمصروف ہیں جو بے چہرہ ہے،جو نسل در نسل قبائلی علاقے میں پلتا رہا ہے۔اب وہ ہمارے جسد قومی سے لہو کا آخری قطرہ پینے کی دھمکی دے رہا ہے،وہ چین کو بھی تاراج کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہماری گردن دبوچ لے، ہمیں اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جانا چاہئے، اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ ، قدم بقدم!!لاہور پولیس کا مقابلہ بعد میں سہی!!