علامہ طاہر القادری کی آمد اور گلو بٹ !
ملک کا سیاسی منظر نامہ ان دنوں جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ کئی اعتبار سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مختلف ادوار کا جزوی ایکشن ری پلے ہے۔ ایسے افراد جو ہماری سیاسی تاریخ کے شاہد ہیں ان کیلئے طاہر القاردی صاحب کا نعرہ مستانہ نئی بات نہیں ۔وہ جس" ڈھول کی تھاپ" پر ہیں وہ اس سے پہلے بھی کئی اناڑیوں کو کھلاڑی اور کئی کھلاڑیوں کو اناڑی بنا چکے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اب کی بار کھیل اس اعتبار سے خاصہ دلچسپ ہے کہ نواز شریف صاحب ایک ایسی شخصیت ہیںجنہوں نے اپنی سیاسی زندگی میںـ" ہر تان پردیپک کا رقص" دیکھا ۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی جگہ پاکستان مسلم لیگ کے صدر بنے تو یہ خیال عام تھا کہ انہیں جنرل ضیاء الحق اوراسٹیبلشمنٹ یہاں تک لائی ہے۔ میاں صاحب نے پیپلز پارٹی اوربے نظیر بھٹو کوبھی "ناکوں چنے چبوائے" اور وزارت اعظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ اقتدار تو رکھتے ہیں لیکن اختیار نہیں۔اس احساس کے تابع جب و ہ اصلی وزیر اعظم بننے لگے تو صدر غلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کے پر کاٹ دئیے۔ وہ جب دوسری بار وزیراعظم بنے تو ان کے ساتھ جنرل مشرف نے جو کیا اس سے ہم سب آگاہ ہیں۔
ایام جلا وطنی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جو مراقبہ کیا اس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت ہوا۔ انہوں نے پاکستان کے سیاسی مرض کی نہ صرف یہ کہ تشخیص کی بلکہ اس کے علاج کے لیے دوا بھی تجویز کر لی۔پاکستانی سیاسی مرض منفرد نوعیت کا ہے۔ اس مرض کی سرجری آسان نہیں۔ اس کا آپریشن Localized نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہی ہر طرف پھیل چکی ہیں۔
اسکے علاج کا دوا ہی کے ذریعے آپشن باقی ہے۔ مرض کی نوعیت کے اعتبار سے کبھی دوا کی خوراک کو بڑھانا اور کبھی گھٹانا ضروری ہے۔ اس عمل میں دوا اور مرض کے درمیان مقابلے کا جاری رہنا قدرتی امر ہے۔ خوش کن بات یہ ہے کہ اس کا ادراک ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو احسن طریقے سے ہے دونوں معالج ایک دوسرے سے الجھنے کی بجائے اب مرض کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال کی سیاسی تاریخ جس میں پیپلز پارٹی کے پانچ سال اور ن لیگ کا ایک سال شامل ہے اس میںیہی حکمت عملی نظر آئی کہ ملک میں جمہوری نظام کو ڈی ریل نہ ہونے دیا جائے۔اس عرصے میں عمران خان کی سیاست کا جائزہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ وہ تمام فیصلے خودکرتے ہیں اور کبھی یوں کہ وہ بھی ـ"ہر تان پر دیپک " الاپ کر رہے ہیں۔ جب وہ کسی کی تھاپ پر جھومنے لگتے ہیں تو انکی پارٹی کے تجربہ کار بڑے (خاص طور پر جاوید ہاشمی) انہیں جمہوریت کی صراط سے ہٹنے نہیں دیتے۔ ورنہ عمران خان صاحب جیسے جذباتی لیڈر کب کے کام آ چکے ہوتے۔ طاہر القادری صاحب ہم سب کے لیے بڑے محترم ہیں۔ مغرب کے گڑھ میں بیٹھ کر اپنی تنظیم اور تحریک کو کامیابی سے چلانا کئی اعتبار سے قابل تحسین ہے۔ ان کا انداز بیان اور طریقہ واردات کمال کا ہے۔ انکی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو انتخابی نشان اور نہ ہی انہوں نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا پھر بھی سیاسی نظام اور منتخب قیادتوں اور حکمرانوں کو یوں للکارتے ہیں کہ ایسا دوسرا کوئی ثانی ہمارے سیاسی نظام میں نہ ہے۔ قادری صاحب کی سیاست کے حوالے سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ طاہر القادری صاحب عام انتخابات سے چند دن پہلے بیرون ملک سے تشریف لائے اور" حکومت نہیں ریاست بچائو "کا نعرہ لگایا۔جم غفیر کو کئی دنوں تک اسلام آباد کے منفی درجہ حرارت میں بٹھا کر "بے نیل و مرام "واپس چلے گئے ۔اب کی بار وہ جون کی تپتی دوپہر میں عوام کے ساتھ کیا کرینگے یہ دیکھنا باقی ہے۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی چاروں صوبوں کی حکومتوں پر کرپشن کے واضح الزامات ہیں۔ روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے۔ معیشت کا پہیہ ہلنے لگا ہے ترقیاتی کاموںکی نوید سنائی دے رہی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں جمہوریت کا فروغ چارہ رہی ہیں تو طاہر القادری صاحب نظام الٹنے کا نعرہ لے کر" فضائی جمپ "لگا رہے ہیں۔لاہور میں منہاج القرآن کے مرکز کے باہر معصوم عوام کا قتل ہر اعتبار سے قابل مزمت اور قابل تعزیر ہے، لیکن لال مسجد طرز کا یہ واقعہ کیوں ہوا؟ اس حوالے سے بہت سے سوال حل طلب ہیں جن کا جواب عام آدمی مانگ رہا ہے۔ملک میں آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے سب کچھ الٹنے کا نعرہ کس برتے پر لگایا جا رہا ہے۔؟ ہر ذی شعور پاکستانی آگاہ ہے ہ ہمارے سیاسی نظام میں بڑی خامیاں ہیں۔ انتخابی کمیشن کے از سر نو شکیل اور انتخابی دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔ ان کی اصلاح ہر اعتبار سے ہمارے بہتر سیاسی مستقبل کے لیے ضروری ہے۔اسی طرح حکومت وقت کو قومی اداروں کے سربراہوں کی تقرری کرتے وقت سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانیوالی ہدایات پرعمل کرنا چاہئیے۔کیونکہ اگر قومی اداروں کے سربراہ مروجہ قوائد و ضوابط کی بجائے ذاتی پسند اور نا پسند پر رکھے جائیں تو یہ قومی مفاد کے تقاضے پورا نہ کر یگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کے دن اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو ایک بار پھر پابند کیا ہے وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرے ۔عدالت نے ایسے اداروں کے سربراہان جن کا تقرر ذاتی پسند پر کیا گیا ہے انہیں خلاف ضابطہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے کئی کیسز عدلت عالیہ میں زیر سماعت ہیں جن پر فیصلہ کسی بھی وقت متوقع ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ تمام حقائق کا ازسر نو جائزہ لے تا کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں" فرق" نمایاں رہے۔ گڈ گورننس کا تقاضہ ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت تقسیم کار کے اصول پر چلائی جائے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰMacro معاملات کی طرف توجہ دیں اور اور Microامور کی نگرانی وزارتی کمیٹیاں کریں تا کہ لاہور جیسے واقعات دوبارہ جنم نہ لیں۔ اسی طرح PEMRA کو جگائے رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس اعتبار سے دو چینلوں کیخلاف جو تا دیبی کاروائی گئی ہے اسے مجموعی طور پر عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔خاص طور پرجبکہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کیخلاف بھر پور اور حتمی آپریشن میں مصروف ہیں اندون ملک کسی" طالع آزمائ" اور" گلو بٹ" کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع نہیں دینا چاہئیے۔ لاہور میں "گلو بٹ" نے جس طرح پولیس دستے کی قیادت کرتے ہوئے ڈنڈا ٹھائے ہوئے مارچ کیا اور توڑ پھوڑ کی وہ ہمارے سیاسی نظام کا ہی خاصہ ہے۔لاہور کا گلو بٹ ایک ایسا استعارہ ہے جس نے ہمارے ہاں ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ایک عام "گلو بٹ "کو توڑ پھوڑ سے نہ روک سکی تو بین الاقومی تربیت یافتہ چھاتہ بردار گلو بٹ سے نظام کو کیسے بچا سکے گی یہ ہے وہ سوال جس کا جواب عوام مانگتے ہیں۔اگر ہم نے ان" گلو بٹوں "کو نہ روکا تو قاردی صاحب کا بھی حق ہے وہ کہ بھی اپنے "گلو بٹوں" کی قیادت کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کے پڑخچے اڑا دیں۔