سانحہ ماڈل ٹائون …طاہرالقادری کا عدالت عظمیٰ سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ‘ شہبازشریف بھی متفق…سپریم کورٹ ہی فریقین کیلئے تحقیقات کا بااعتماد فورم ثابت ہو سکتا ہے
وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ہدایت پر وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے استعفٰی دیدیا جسے منظور کر لیا گیا۔ رانا ثناء اللہ کو سانحہ لاہور کی شفاف تحقیقات کیلئے ہٹایا گیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر کو بھی انکے عہدے سے ہٹا دیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سانحہ لاہور پر اگر سوموٹو ایکشن لیتی ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرینگے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس تصادم میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور دلی دکھ ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیلئے قائم عدالتی کمیشن پر اعتماد ہے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نے اس پر عدم اعتماد کیا ہے۔ دریں اثناء عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ ناکافی ہے، تاہم ہمارے موقف کی فتح ہوئی ہے، شہباز شریف نے تمام سرکاری بیانات کو غلط ثابت کردیا، انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کرائے۔
ماڈل ٹائون میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی سنگ دلی کی وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی لیڈرشپ نے شدید مذمت کی۔ اسکے ساتھ ساتھ ہر سیاسی و مذہبی پارٹی اور تنظیم کی طرف سے بھی مذمت کی گئی۔ کچھ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے جہاں اس سانحہ سے سیاسی مفادات کے حصول کی کوشش کی گئی‘ وہیں مسلم لیگ کے کچھ وزراء نے اپنی تندخوئی سے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا جو مرکزی و پنجاب حکومت کیلئے مزید پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر چڑھائی رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر کی گئی جس کی ان حالات میں قطعی ضرورت نہیں تھی جب پورا ملک حالت جنگ میں ہے۔ حکومت پاک فوج کے ضرب عضب اپریشن کا ساتھ دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف اس اپریشن کی کامیابی کیلئے پوری قوم کا اتحاد ناگزیر ہے۔ ایسے موقع پر مشیروں کے احمقانہ مشوروں پر حکومت نے ایک نان ایشو کو ایشو بنا دیا۔ یہ سانحہ ایک دلدل کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جس میں حکومت پھنس کے رہ گئی ہے۔ طاہرالقادری ایک رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو مسترد کرچکے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے اس واقعہ کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یک رکنی کمیشن سب کو ’’بے گناہ‘‘ قرار دے دیگا۔ قادری کی رائے پرویز رشید جیسے وزیروں کے ایسے بیانات کے بعد تقویت پکڑ رہی ہے کہ ’’کمیشن کی رپورٹ آنے دیں‘ ہو سکتا ہے خود عوامی تحریک ملوث ہو۔‘‘ پوری دنیا ٹی وی چینلز پر لمحہ لمحہ کی کارروائی دیکھتی رہی‘ حکومتی حلقے اسکی مذمت کر رہے ہیں پھر بھی کچھ وزیر عوامی تحریک کو مجرم قرار دینے کی بات کرینگے تو معاملات کا راست سمت میں آنا ممکن نہیں رہے گا۔ رانا ثناء اللہ اس سانحہ کے بعد جو اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے‘ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے سبکی کا باعث بنے۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف ایک طرف حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے‘ دوسری طرف عوامی تحریک کے گرد شکنجہ کسنے کے اقدامات بھی دیکھنے میں آئے۔ طاہرالقادری کے صاحبزادے سمیت تین ہزار کارکنوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرادیا گیا۔ شہباز شریف کہتے ہیں‘ انہوں نے اسی رات حسین محی الدین کا نام ایف آئی آر سے نکلوادیا تھا۔ پولیس کی بربریت پر پولیس ہی کو تفتیش پر مامور کرکے انصاف کے تقاضے کس طرح پورے ہو سکتے ہیں؟
رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر تھے‘ وہ ہر قومی معاملے میں ٹانگ اڑانے کو بھی اپنا اختیار اور فرض سمجھتے تھے۔ دوبار وزیراعظم نے انکے غیرذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لیا لیکن ان کیخلاف کوئی ایکشن نہ لیا جا سکا۔ وزیراعظم نوازشریف تاجکستان سے لوٹے تو بریفنگ کیلئے رانا ثناء اللہ پر ہی انحصار کیا گیا۔ اصل حقائق تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد ہی سامنے آسکتے ہیں لیکن زبان خلق پر صوبائی وزیر قانون ہی کا نام تھا۔ خود (ن) لیگ کے حلقوں میں رانا صاحب کیلئے ناپسندیدگی کے جذبات موجود ہیں۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ان سے استعفیٰ لے کر درست فیصلہ کیا۔ ساتھ اپنے پرنسپل سیکرٹری کو بوجھل دل کے ساتھ فارغ کر دیا۔ بادی النظر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بدنام کرانے میں یہ لوگ سرغنہ ثابت ہوئے ہیں۔ انکی نیت تو اپنی حکومت کو بدنام کرانے کی نہیں ہو سکتی‘ طاہرالقادری کی آمد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے ان لوگوں نے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفاردار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ طاہرالقادری نے گزشتہ سال کنیٹنر مارچ کرکے جو معرکہ مارا تھا‘ 23 جون کو اسلام آباد آمد پر اس سے بڑا تیر نہیں مار سکتے۔ انکی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تو ان کو ہیرو بننے کا موقع ملے گا اور حکومت کی سبکی ہو گی۔ 23 جون کو حکومت ان کو کھلی چھٹی دے دے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں کو ان کا استقبال کرنے دیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون ایشو کو مناسب طریقے سے ہینڈل نہ کرنے کے باعث اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا اور انہوں نے سانحہ کے چار روز بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ طاہرالقادری کی آمد پر ہنگامہ آرائی ہوئی تو معاملہ تحریک تک بھی پہنچ سکتا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو گا‘ نہ جمہوریت کے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو پہنچ سکتا ہے اس لئے وزیراعظم نوازشریف اور انکے برادر خورد شہبازشریف اپنی پارٹی اور حکومت کی بقاء کیلئے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں‘ مشیروں کے عوامی تحریک کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے احمقانہ مشوروں کو اہمیت نہ دیں۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ تک جس طرح پولیس حکام اور اہلکار بربریت کی مثال نظر آرہے تھے‘ آزاد ہیں تو عوامی تحریک کے کارکنوں کو بھی رہا کر دیا جائے۔
شہبازشریف نے بجا کہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اگر سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمشن بنوانے کیلئے سپریم کورٹ جائیں یا سپریم کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سوموٹو ایکشن لے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ طاہرالقادری نے بھی سپریم کورٹ سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے سانحات میں اصل ملزموں اور مجرموں کا تعین ٹربیونل اور کمیشن کے ذریعے ہی ہوتا ہے جس پر فریقین کا اعتماد ضروری ہے۔ حکومت کے تشکیل کردہ بینچ پر عوامی تحریک اعتماد کرنے پر تیار نہیں تو اسکی رپورٹ کی کیا حیثیت ہو گی۔ اب فریقین نے اپنے اپنے طور پر سپریم کورٹ سے تحقیقات کامطالبہ کیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات کیلئے یہی ایک مناسب فورم ہو سکتا ہے جس پر فریقین متفق ہیں۔ بہتر ہے سپریم کورٹ اس پر سوموٹو لے یا حکومت سپریم کورٹ سے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کرے۔ طاہرالقادری بھی انصاف کیلئے معاملہ سپریم کورٹ لے جا سکتے ہیں۔